ہاتھ دھونا استنجاء سے پہلے بھی سنت ہے اور وضوسے پہلے بھی۔ اور “اذا استیقظ احدکم من منامہ۔۔۔۔۔.الخ کی قیداتفاقی قید ہے احترازی نہیں پھر علامہ شامینے فرمایا کہ اصح قول یہی ہے کہ یہ مطلق سنت ہے اکثر فقہاء کی یہی رائے ہے۔ہاں اگر ہاتھوں پر نجاست کا وہم ہو تو پھر دھونا سنت مؤکدہ ہےورنہ غیرمؤکدہ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 110)
وَفِي النَّهْرِ: الْأَصَحُّ الَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُ أَنَّهُ سُنَّةٌ مُطْلَقًا، لَكِنَّهُ عِنْدَ تَوَهُّمِ النَّجَاسَةِ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ، كَمَا إذَا نَامَ لَا عَنْ اسْتِنْجَاءٍ أَوْ كَانَ عَلَى بَدَنِهِ نَجَاسَةٌ، وَغَيْرُ مُؤَكَّدَةٍ عِنْدَ عَدَمِ تَوَهُّمِهَا، كَمَا إذَا نَامَ إلَّا عَنْ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ أَوْ لَمْ يَكُنْ مُسْتَيْقِظًا عَنْ نَوْمٍ اهـ وَنَحْوِهِ فِي الْبَحْرِ