زکوٰۃ  کی ادائیگی کا آسان طریقہ

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:111

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مولانا اعجاز احمد صمدانی

استاد جامعہ دارالعلوم کراچی

زکوٰۃ  کی ادائیگی کا آسان طریقہ

دین اسلام کی بنیاد جن ستونوں پر رکھی گئی ہے، ان میں سے ایک بنیادی ستون زکوٰۃ  ہے۔  قرآن مجید میں جابجااقیموا  الصلوۃ کے ساتھ واتواالزکوٰۃ    کا حکم آیا ہے جس سے زکوٰۃ  کی اہمیت اورفرضیت واضح ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں زکوٰۃ   نماز ہی کی طرح فرض عین ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نماز ہر مسلمان پر فرض ہے جبکہ زکوٰۃ  صاحب نصاب مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔

لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ‏ ہمارے یہاں زکوٰۃ  کی ادائیگی کا اہتمام بہت کم ہے۔ بعض بدنصیب  تو ایسے ہیں کہ سرے سے زکوٰۃ  ادا ہی نہیں کرتے جو کہ بڑی محرومی اور بڑے گناہ کی بات ہے۔ قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں زکوٰۃ  ادا نہ کرنے کی متعدد وعیدیں آئی ہیں جو ایمان کی ادنیٰ سی چنگاری رکھنے والے مسلمان کو بھی اس اہم فریضے  کی ادائیگی پر ابھارنے کے لئے کافی ہیں مثلا قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ

(التوبہ :٣٤)

ترجمہ: اورجو جمع کر کے رکھتے ہیں سونا  اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں ، سوان کو خوشخبری سنادے درد ناک عذاب کی۔ جس دن کہ آگ دہکائیں گے  اس مال پر دوزخ کی پھر داغیں  گےاس  سے ان کے ماتھے اور پہلو اور پیٹھیں۔

ایک حدیث میں ہے :

ما منع قومٌ من الزكاة إلا ابتلاهم الله بالسنين(المعجم الاوسط للطبرانی حدیث رقم :٤٧٣٣)

ترجمہ: جب کوئی قوم زکوٰۃ  ادا نہیں کرتی تو  اللہ تعالیٰ اس پر قحط سالی مسلط فرمادیتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں زکوٰۃ  کی ادائیگی  کتنی اہم اور ضروری ہے۔

الحمدللہ، بہت سے مسلمان ایسے ہیں کہ جو زکوٰۃ ادا  کرتے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے لوگ طرح طرح کی کوتاہیوں میں مبتلا ہیں مثلا :

١۔۔۔۔بعض لوگ زکوٰۃ  کا باقاعدہ حساب نہیں کرتے، جتنا  جی میں آئے دے دیتے ہیں۔ اس بات کا اہتمام نہیں کرتے کہ جتنی زکوٰۃ  ان پر واجب تھی، وہ سب  ادا ہوگئی  کہ نہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں۔ اگر اس طرح کرنے سے کچھ مال کی زکوٰۃ  رہ گئی ہوتو اتنے  مال کی زکوٰۃ  ادا نہ کرنے کا گناہ ہوگا۔

٢۔۔۔۔بعض لوگ حساب تو کرتے ہیں لیکن صحیح صحیح حساب نہیں کرتےبلکہ اندازے سے  حساب کرتے ہیں۔ اپنے اموال کا ایک عمومی اندازہ لگاتے ہیں اور اس کے حساب سے بننے والی زکوٰۃ  ادا کردیتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ احتیاطا کچھ  زیادہ زکوٰۃ  ادا کردیتے ہیں ۔ لیکن یہ طریقہ بھی درست نہیں اس لیے  کہ اس سے پوری زکوٰۃ  ادا ہونے کا یقین نہیں ہوتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اموال کا پورا حساب کرکے زکوٰۃ  ادا کی جائے۔ ہا ں، ایسی صورت میں اگر کچھ زکوٰۃ  مزید ادا کردی جائیں تو یہ بہتر اور احتیاط کی بات ہے۔

٣۔۔۔۔بعض لوگ اموال زکوٰۃ  کی وہ قیمت لگاتے ہیں جس پر انہوں نے مال خریدا یاجتنی رقم خرچ کرنے پر وہ مال تیار ہوا یہ بھی درست نہیں ۔صحیح بات یہ ہے کہ زکوٰۃ   کا حساب کرتے ہوئے ان اموال  کی موجودہ بازاری قیمت لگانی چاہیے۔

٤۔۔۔۔بعض لوگ تمام اموال کی زکوٰۃ   ادا نہیں کرتے، بلکہ بعض اموال کی زکاۃ ادا کردیتے ہیں اور بعض  کی نہیں کرتے۔ اس کوتاہی کا بڑا سبب لا علمی  ہے کہ ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے کون کون سے اموال پر زکوٰۃ  واجب ہے۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کوتاہیاں ہو جاتی ہیں لیکن درج بالا کوتاہیاں وہ ہیں جن کا تعلق زکوٰۃ  کے حساب سے ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ زکوٰۃ  کی ادائیگی کے لئے تفصیلی نقشہ مع مثال  شائع کیا  جائےتاکہ  عوام الناس کے لیے اس کے ذریعے زکوٰۃ   کا حساب نکالنا آسان ہو۔ چنانچہ ذیل میں ایک نقشہ دیا جارہا ہے۔ آپ اس کی رہنمائی میں صحیح صحیح زکوٰۃ  نکال سکتے ہیں۔

(پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں ( https://www.facebook.com/groups/497276240641626/549339895435260/)

نقشہ برائے ادائیگی زکوٰۃ
(الف )قابل زکوٰۃ اثاثے
نمبر شمارقابل زکوٰۃ اثاثےقیمت
١سونا (خواہ کسی شکل میں ہو)۔50,000/=
٢چاندی( خواہ کسی شکل میں ہو)۔10,000/=
٣مال تجارت یعنی بیچنے کی حتمی  نیت سے خریدا ہوا مال ،مکان ،زمین وغیرہ۔ (١)300,000/=
٤بینک میں جمع شدہ رقم۔100,000/=
٥اپنے پاس موجود نقد رقم۔100,000/=
٦ادھار رقم (جس کے ملنے کا  غالب گمان ہو) خواہ  نقد رقم کی صورت میں دیا ہو،  مال تجارت بیچنے کی وجہ سے واجب ہوا ہو۔50,000/=
٧غیر ملکی کرنسی( موجودہ ریٹ سے)۔10,000/=
٨کمپنی کے شیئرز جو تجارت (capital gain) کی نیت سے خریدےہوں،  ان کی پوری قیمت (موجودہ مارکیٹ ویلیو)۔50,000/=
٩جو شئیرز نفع(Dividend)  کی  غرض سے خریدے گئے،  ان میں  کمپنی کے ناقابل زکوٰۃ اثاثے (Operating Assets) جیسے بلڈنگ،  مشینری وغیرہ کو منہا کیا جاسکتا ہے ۔(اور بہتر ہے کہ احتیاطا ان کی پوری قیمت لگائی جائے )50,000/=
١٠بچت سرٹیفکیٹ جیسےNIT, NDFC, FEBC   (صرف اصل رقم پر زکوٰۃ  ہوگی)۔(٢)100,000/=
١١کسی جگہ اپنی امانت رکھوائی ہوئی رقم ، سونا، چاندی ، مال تجارت10,000/=
١٢کمیٹی (بیسی )میں اپنی جمع شدہ رقم۔( جبکہ بیسی وصول نہ ہوئی ہو)10,000/=
١٣خام مال جو مصنوعات بنا کر فروخت کرنے کے لیے خریدا گیا۔200,000/=
١٤تیار شدہ مال کا اسٹاک۔20,000/=
١٥کاروبار میں شراکت کے بقدر حصہ۔ (قابل  زکوٰۃ  اثاثوں کی مالیت مع نفع)50,000/=
کل مال  زکوٰۃ  کی مالیت رقم شکل میں:11,10,000/=
(١)۔۔۔۔اگر بیچنے کی حتمی نیت نہ ہو بلکہ کرایہ پر دے کر کمانے کی نیت ہو یا ویسے ہی سرمایہ محفوظ کرنے کےلئے کوئی  جائیداد خریدی تو زکوٰۃ واجب نہ ہو گی۔
(٢)۔۔۔۔اگرچہ موجودہ حالات میں ان کا خریدنا جائز نہیں
نمبر شمار(ب) وہ رقوم  جو منہا کی جائینگیمقدار
١واجب الادا قرضہ (١)10,000/=
٢کمیٹی( بیسی ) کے بقایاجات ۔ (اگر یہ کمیٹی مل  چکی ہو)100,000/=
٣یوٹیلیٹی بلز جو  زکوٰۃ نکالنے کی تاریخ تک واجب ہوچکے ہوں۔10,000/=
٤پارٹیوں کی ادائیگیاں جو ادا کرنی ہو۔100,000/=
٥ملازمین کی تنخواہیں، جو  زکوٰۃ  نکالنے کی تاریخ تک واجب ہو  چکی ہوں۔100,000/=
٦گزشتہ سال کی زکوٰۃ  کی رقم ، اگر ابھی تک ذمہ میں باقی ہو۔10,000/=
٧قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قسطیں100,000/=
وہ رقم جو منہا کی جائیگی4,30,000/=
کل مال  زکوٰۃ ( رقم )11,10,000/=
وہ رقم جو منہا کی جائیگی4,30,000/=
وہ رقم جس پر زکوٰۃ  واجب ہے6,80,000/=
مقدار زکوٰۃ  (قابل  زکوٰۃ  رقم کو چالیس  پر تقسیم کریں)17,000/=
نوٹ : یہاں تمام رقوم  کو بذریعہ مثال  واضح کیا گیا ہے،  اپنے اموال کی حقیقی قیمت درج کرکے مندرجہ بالا طریقہ کار اختیار کریں ، آپ ان اموال کی قیمت درج فرمائیں جو آپ کے پاس موجود ہو ں اور نمونے  کے مطابق زکوٰۃ  کا حساب نکالیں۔
مرتبہ
اعجاز احمدغفر اللہ لہ
دارالافتاء دارالعلوم کراچی
٦-٨-١٤٢٩ ھ
(١)البتہ وہ بڑے بڑے پیداواری قرضے  جن سے قابل زکاۃ اموال خریدے جائیں،  منہا نہ ہونگے۔ ( اسلام اور جدید معیشت وتجارت،٩٤)۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں