ضرورت مند غیر ہاشمی کو زکوۃ دینا

السوال:اگر کسی کی خالہ جو کہ غیر ہاشمی ہو اور صاحب نصاب بھی نہ ہو تو انہیں زکوۃ کی رقم سے عمرہ کرایا جا سکتا ہے؟

الجواب باسم ملھم بالصواب

واضح رہے کہ زکوۃ کی رقم مستحقِ زکوٰۃ کو اس طرح مالک بناکر دینا ضروری کہ اگر وہ اپنی ضروریات میں استعمال کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

لہذا اگر واقعۃً خالہ مستحقِ زکوٰۃ بھی ہیں اور سید بھی نہیں ہیں تو ان کو زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دی جاسکتی ہے،پھر وہ اپنی مرضی سے اس رقم کو کسی بھی مصرف میں استعمال کر سکتی ہیں، اگر عمرہ کا ارادہ ہے تو عمرہ کرنا بھی درست ہے، لیکن زکوة دینے والا کسی خاص مصرف میں خرچ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

قرآن کریم سے :

1)انما الصدقات للفقراء والمسکین والعملین علیھا والمولفۃ قلو بھم وفی الرقاب والغرمین وفی سبیل اللہ و ابن السبیل فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم(سورۃ توبہ آیت 60)

ترجمہ :صدقات تو حق ہے صرف غریبوں اور محتاجوں کا اور جو کارکن ان صدقات پر متعین ہیں اور جن کی دلجوئی کرنا ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضہ میں اور جہاد میں اور مسافروں میں ،یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ تعالی بڑے علم والے اور بڑی حکمت والے ہیں ۔

کتب فقہ سے:

2)والافضل فی الزکوۃ والفطر والنذر و الصرف اولا الی الاخوۃ والاخوات ثم الی اولادھم ثم الی الاعمام والعمات ثم الی اولادھم ثم الی الاخوال والخالات ثم الی اولادھم ثم الی ذوی الارحام (فتاوی العالمگیریہ،کتاب الزکوۃ ج1ص190)

3)قید بالاصول لان غیرھم من الا قارب یجوز الصرف الیہ (النھر الفائق،کتاب الزکوۃ ،باب المصرف ج1ص 463)

4)فھی تملیک المال من فقیر مسلم غیر ھاشمی ولا مولاہ بشرط قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ للّٰہ تعالی (کتاب الزکوۃ باب وصفتھا وشرائطھا الفتاوی الھندیہ ج1 ص188)

واللہ اعلم بالصواب

شمسی 2022-02-02

قمری 1رجب

اپنا تبصرہ بھیجیں