ذکرجہری کاشرعی حکم

سوال:ذکر جہری شرعاً درست ہے؟

جواب:اس مسئلے کی تحقیق میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دیگر مشائخ نے بہت کچھ لکھا ہے، مناسب یہ معلوم ہوتا ہےکہ اپنی طرف سے لکھنے کے بجائے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فتاوی کے مجموعہ “امداد الفتاویٰ” سے کچھ خلاصہ نقل کیا جائے۔

حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مطابق ذکر کی دو قسمیں ہیں:ماثور اور غیر ماثور۔

ماثور:وہ ذکر ہے جس کو شارع علیہ السلام نے بالجہر(بلند آواز) یا بالخفاء (آہستہ آواز میں) متعین کردیا ہو ،مثلاً: اذان،اقامت،نماز میں قرأت، تشہد وغیرھا۔

اس کا حکم تو بالاتفاق یہ ہے کہ جس طور پر متعین کر دیا گیا اسی طرح کرنا چاہیے۔

غیر ماثور دوقسم پر ہے جہر اور خفی۔ خفی بالاتفاق جائز ہے جبکہ ذکر بالجہر میں دو قول ہیں: بعض علماء کے نزدیک جائز اور بعض کے نزدیک ناجائز ،حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ ذکر بالجہر کے دلائل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ بس جب ذکر بالجہر ثابت ہوگیا تو پھر ذکر بالجہر کسی طور و ہیئت کے ساتھ مقید نہیں، بلکہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر، حلقہ باندھ کر ہو یا صف باندھ کر یا کسی اور صورت سے، کھڑے ہو کر ہو یا بیٹھ کر ہر طور سے جائز ہے۔ کسی کو کسی طور سے منع نہ کریں یہی ارجح و واضح ہے۔

مفتی محمد شفیع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ مگر اس میں شرط یہ ہےکہ کسی سوئے ہوئے یا نمازی کو اذیت و تکلیف نہ ہو۔

(مزید تفصیل اور دلائل کے لیے ملاحظہ ہو امداد الفتاوی: 167/5_169)

حضرت کے فتویٰ کا حاصل یہ ہے کہ آج کے دور میں جس طرح جسمانی علاج کے مختلف طریقے رائج ہیں اور سب طریقوں سے علاج کیا جاتا ہے ،اسی طرح ذکر سے بھی باطنی امراض کا علاج کیا جاتا ہے، اس لیے ذکر بالجہر بھی اگر بطور علاج کیا جائے تو ہر طرح جائز ہے۔البتہ اگر اس کو اصلاحی خانقاہی سلسلہ سے تجاوز کرکے شرعی امر اور مسنون طریقہ سمجھ کر کیا جانے لگے گا تو یہ طرز اس کو بدعت و ناجائز بناسکتا ہے۔

فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں