اسقاط سے پہلے آنے والے خون کا حکم

کیا فرماتے ہیں مفتی صاحبان اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر عورت کا حمل تین ماہ کا ضائع ہو جائے اور ضائع ہونے سے2 یا3 دن پہلے خون جاری ہوجائے تو اس خون کا شرعی احکام کی ادائیگی میں کیا حکم ہے؟ 

الجواب باسم ملھم الصواب 

مذکورہ مسئلہ میں تفصیل یے 

(1)اگر تین ماہ کا حمل ہواور بچے کی خلقت ظاہر ہو گئی ہو تو اس دوران جو خون آجائے وہ استحاضہ ہو گا

(2)بچے کی خلقت ظاہر ہوگئی ہو لیکن حمل ضائع ہو جائے، تو اس کے بعد جو خون آیا وہ نفاس ہو گا

(3)بچے کی خلقت ظاہر نہ ہوئی ہو(کوئی بھی عضو نہ بنا ہوجیسے:انگلی ،ناخن بال وغیرہ)اور حمل ضائع ہو جائے ،تواس سے پہلے آنے والا خون اگر حیض بن سکتا ہو (تین دن سے زیادہ اور دس دنوں سے کم ہے)تو حیض ہوگااو اگر خون دس دنوں سے بڑھ جائے، تو عادت کےدن حیض شمار ہونگے باقی استحاضہ اوراگر تین دن سے کم آیاتو وہ استحاضہ شمار ہوگا ۔

کما فی المبسوط : 

فان رات الدم قبل اسقاط السقط، فان کان السقط مستبین الخلقۃ لا تترک الصوم والصلاۃ بالدم المرئی قبلہ، وان کانت ترکت الصلاۃ فعلیھا قضاءھا لانہ تبین انھا کانت حاملا حین رات الدم ولیس لدم الحامل حکم الحیض، وھی نفساء فیما تراہ بعد السقط، وان لم یکن السقط مستبین الخلقہ فما راتہ قبل السقط حیض ان امکن ان یجعل حیضا، ان وافق ایام عادتھا ورئی عقیب طھر صحیح ،لانھا تبین انھا لم تکن حاملا،ثم ان کان ما رات قبل السقط مدۃ تامۃ فما رات بعد السقط استحاضہ ،وان لم تکن مدۃ تامۃ تکمل مدتھا مما رات بعد السقط ،ثم ھی مستحاضۃ بعد ذلک ،فان کانت ایامھا ثلاثہ فرات قبل السقط ثلاثۃ دcما ثم استمر بھا الدم بعد السقط فحیضھا الثلاثۃ التی راتھا قبل السقط وھی مستحاضۃ فیما رات بعد السقط ۔( 225/3)

واللہ اعلم بالصواب 

زوجۃ ارشد 

28 فروری 2017

1 جمادی الاخری 1438 

صفہ آن لائن کورسز

اپنا تبصرہ بھیجیں