بینک کی کمائی کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

میرے شوہر کے کزن بنک میں کام کرتے ہیں ۔اور انکے گھر ہمارا آنا جانا بہت ہے۔ اگر چہ گھر کا خرچ کزن کے والد ہی کرتے ہیں۔ کیا ان کے گھر کچھ کھانا یا تحائف لینا دینا ہمارے لیے جائز ہے؟ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

جواب: بینک کے ملازمین کی کمائی کے حوالے سے تمہیدا ًکچھ نکات ذہن نشین رہیں:

(1) پہلی بات بینک کے ملازم کی تنخواہ مطلقا ًحرام نہیں ہوتی بلکہ وہ حرام ہوتی ہے جس میں ملازم کے ذمہ براہ راست بینک کے سودی معاملات کی ذمہ داری ہو۔

(2) دوسری بات ایسا شخص اگر اس ملازمت کے علاوہ کوئی اور جائز پیشہ(تجارت،زمینیں) رکھتا ہو تو اس کے بقدر اس کی آمدنی حلال ہے۔ لہذا ایسے شخص کی دعوت قبول کرنا بقدر حلال میں سے جائز ہے۔

تمہید کے بعد اب اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کا ذریعہ آمدنی حلال و حرام دونوں پر مشتمل ہے (جیسا کہ سوال میں بتایا گیا کہ گھر کا خرچہ ان کے والد اٹھاتے ہیں ) تو پھر ان کے گھر کھانے کی اور تحائف کے لین دین کی اجازت ہے کیونکہ نسبت حلال ہی کی طرف کی جائے گی۔ اس کے ساتھ برابر انہیں حکمت کے ساتھ ،فضائل سنا کر حرام سے بچنے کی ترغیب بھی دیتے رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)”أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع”

ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال، بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام، فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم”. (الفتاوى الهندية :۵/۳۴۲)

(۲)آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط”. (فتاوی عالمگیری:۵/ ۳۴۳، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، رشیدیہ) 

اپنا تبصرہ بھیجیں