قربانی کے لیے وکیل بنانا

فتویٰ نمبر:890

سوال: اگر تمام بھائی بہن کسی.ایک بھائی کو اپنی اپنی قربانی کی رقم دے کر اسے اس اپنی قربانی طرف سے وکیل بنادیں اور اسے تصرف کی مکمل.آزادی دے دیں.تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا?کیونکی سب ساتھ ہی رہتے ہیں تو گوشت کی تقسیم کی بھی کوئی صورت نہ ہوگی اور سب کے پیسے کم زیادہ ہیں.تو کیا یہ وکیل بنانا درست ہوگا?

الجواب حامدۃو مصلية

کسی کو قربانی کے لیے اپنا وکیل بنانا جائز ہے۔ اس صورت میں وکیل ان باتوں کو مدنظر رکھے:

1 اگر وکیل سب کی طرف سے ایک ایک بکرا لیتا ہے تو قربانی کے وقت اسے ہر جانور کو متعین کرنا ضروری ہے کہ یہ فلاں کی قربانی ہے اور اگر وہ بڑا جانور لیتا ہے تو جس جانور میں سات لوگ شریک ہوں اس میں ان ساتوں کی نیت کرنا ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ دو گائے میں 14 لوگوں کی مجموعی نیت کی جائے بلکہ ہر گائے میں سات سات لوگوں کا تعین کرنا ضروری ہے.

2 بڑے جانور میں سات سے زائد حصّے نہ ہونا۔ اگر ایک بڑے جانور میں سات سے زیادہ حصّے رکھ لیے تو کسی کی قربانی ادا نہ ہوگی۔

3 کسی بھی حصّہ دار کا شرکیہ، کفریہ یا زندقہ وملحدانہ عقائد والا نہ ہونا۔ ایسے عقیدے والا کوئی بھی شخص شریکِ قربانی ہوگیا تو تمام حصّہ داروں کی قربانی غارت ہوجائے گی۔

4 جان بوجھ کر کسی ایسے شخص کو حصہ دار نہ بنانا جس کی کل یا اکثر آمدنی حرام کی ہو۔ اگر کوئی ایک شخص بھی حرام آمدنی سے شریکِ قربانی ہوگیا تو کسی کی قربانی نہ ہوگی۔یہ ایک قول ہے ۔یہی مشہور ہے اوراسی میں احتیاط ہے، تاہم یہاں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ انہیں شریک تو نہیں کرنا چاہیے لیکن شریک کرلیا تو سب کی قربانی ہوجائے گی،البتہ حرام آمدنی والے کو ثواب نہیں ملے گا۔ 

گوشت کی تقسیم میں سود سے بچنے کا طریقہ:

سب سے پہلے واضح رہے کہ اگر چولہا ایک ہو تو گوشت کی تقسیم میں برابری ضروری نہیں، اسی طرح اگر تمام گوشت صدقہ کرنا ہو تب بھی تقسیم ضروری نہیں۔

لیکن اگر چولھا بھی ایک نہیں اور تمام گوشت صدقہ بھی نہیں کرنا تو اندازے سے تقسیم سود ہے۔ 

سود سے بچنے کی چند صورتیں ہیں:

(1) گوشت اور ہڈیاں تمام حصّہ داروں میں بالکل صحیح ناپ تول کر برابر تقسیم کیا جائے۔

(2) اگر تولنے کی مشقت سے بچنا ہو تو کسی کے حصّہ میں پائے کسی کے حصّے میں کلیجی کسی کے حصّے میں گردے اور کسی میں زبان رکھ دی جائے، اس صورت میں اندازے سے تقسیم سود نہیں ہوگا۔

(3) اگر وکیل کو گوشت میں تصرف کا مکمل اختیار دے دیا جائے تو وہ گوشت کی تقسیم اپنے حساب سے کرسکتا ہے یہ صورت سب سے بہتر ہے تمام مسائل سے بچنے کے لیے.

أن کل ما جاز للإنسان أن یتصرف بنفسہ في شيء جاز لہ أن یؤکل فیہ غیرہ۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ۳؍۱۸۰)

و اللہ سبحانه اعلم

بقلم : بنت معین 

قمری تاریخ:6.ذی الحج.1439

عیسوی تاریخ: 18.اگست.2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم صاحب

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں