پہلی مثال:
ایک شخص فجر کے فرض دو کی بجائے چار پڑھتا ہے۔ رمضان المبارک کے 30 کے بجائے 40 روزے رکھتا ہے۔ مکہ مکرمہ جا کر حج کرنے کی بجائے اپنے علاقے میں کعبہ کے نام سے ایک عمارت بنا کر اسی کا حج کرتا ہے اور ان سب باتوں کو وہ اسلام اور دین کہتا ہے۔ کیا کوئی بھی اس کے اس دعویٰ کو تسلیم کرے گا؟ نہیں! ہرگز نہیں۔
دوسری مثال:
ایک شخص آپ کا ہر وقت کا ہم نشین ہے۔ ہر وقت وہ آپ کے ساتھ رہتا ، اٹھتا بیٹھتا ہے۔ آپ کی ہر ادا اور عادت و اطوار کا اسے بخوبی علم ہے اور ہر وقت کا ساتھی ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی طبیعت، مزاج اور قول و فعل کی گہرائی سے واقف ہے۔ آپ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ آپ کے دنیا سے جانے کے بعد دو افراد آپ کے حالات زندگی سے بحث کرتے ہیں ایک وہ جو آپ کا ہمیشہ کا ہم نشین اور ہمراز اور دست راست تھا۔ دوسرا وہ جو آپ کے انتقال کے صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ اب آپ بتائیے! آپ کی طبیعت، عادات اور معمولات کو ان دونوں میں سے کون صحیح صحیح بیان کرسکتا ہے۔ آپ کے مختلف اقوال و افعال کی درست تشریح ان دونوں میں سے کون کرسکتا ہے؟ یقیناًوہ شخص جو آپ کا ہمیشہ کا ساتھ اور سفر و حضر کا رفیق رہا۔ جبکہ دوسرا شخص جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ وہ قیاس آرائیاں کرکے آپ کی زندگی کے بہت سے گوشوں کو مسخ کرڈالے گا۔
تین اُصول:
ان دو مثالوں سے آپ کو دین کے چند اہم اصول سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے:
پہلا اصول:
جس طرح فجر کے فرض دو کی بجائے زیادہ مثلاً چار پڑھنا ثواب اور دین نہیں بلکہ گمراہی اور جہالت ہے اسی طرح دین میں اپنی طرف سے کسی بھی قسم کی زیادتی اور اضافہ دین نہیں، بلکہ سراسر جہالت اور گمراہی ہے۔ جو روزہ اور نماز بلکہ جو بھی نئی عبادت دین میں مستند طریقے سے وجود نہیں رکھتی اس کو دین سمجھ کر اور ثواب سمجھ کر کرنا گمراہی ہوگا۔
دوسرا اصول:
اسلام اور دین کو اور قرآن و سنت کو جتنا حضور اکرم ﷺ کے صحبت یافتہ اشخاص اور آپ کے رفقاء سمجھ سکتے ہیں اتنا صدیوں بعد پیدا ہونے والے افراد نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کے مختلف اقوال و افعال اور زندگی کے مختلف گوشوں کے حوالے سے صحابہ کرام اور صحابہ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین جو مستند تشریح کر سکتے ہیں بعد کے زمانے کے لوگ نہیں کرسکتے۔ اسلام کی نبض شناسی ان حضرات سے زیادہ بہتر کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔
تیسرا اصول:
اگر دین اور اسلام کے نام پر ہر چند سالوں میں نئے نئے اضافے ہوتے رہے تو اصل اور نقل میں امتیاز نہیں رہ پائے گا۔ کھرے اور کھوٹے میں تمیز باقی نہیں رہ پائے گی اور اسلام کا سادہ اور روشن طریقہ بدعات کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ جائے گا۔ دین کی اصل شناخت مسخ ہو کر رہ جائے گی اور چند صدیوں میں اسلام اسی طرح محرف اور تبدیل ہوجائے گا جس طرح یہودی اور عیسائی مذہب چند ہی صدیوں میں مسخ ہوکر رہ گئے تھے۔
انہیں خطرات کی روک تھام کے لیے ذخیرہ احادیث میں ہمیں ایسے بے شمار روشن اور بیش بہا ارشادات و فرامین ملتے ہیں جو خالص دین پر جمے رہنے کی تلقین کرتے اور بدعات سے بچنے کی بھرپور تاکید کرتے ہیں تاکہ امت ان کو اپنا مشعل راہ بنائے! چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں!
1۔”جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو (اور اسے دین اور ثواب سمجھ کر کرے) تو وہ مردود ہے۔”(صحیح مسلم : ۲/۲۵)
2۔کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق ) آگے نقل کردے۔ (خصوصاً دین کی باتوں کو) (مشکوٰۃ : ص ۲۸)
3۔میرے بعد میری سنت اور خلفائے راشدین کے طریقوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔۔۔ اور دین کے نام پر ایجاد کی جانے والی نئی نئی باتوں سے بچنا۔‘‘ (مشکوٰۃ : ص ۳۰)
4۔ دع ما یریبک الیٰ مالا یریبک۔ (مشکوٰۃ، مسند احمد، ترمذی)
جس چیز کے اندر شک ہو کہ یہ دین ہے یا نہیں اسے چھوڑ دو اور ایسی چیز اختیار کرو جس میں کوئی شک نہ ہو۔
اسی وجہ سے تمام علماء کا متفقہ اصول ہے : ما تردد بین البدعۃ و السنۃ یترک
(ھندیہ: ۱/۱۷۹، البحرالرائق : ۳/۳۰، شامی : ۱/۶۰۰، فتح القدیر: ۴/۴۵۵، سجود السہو)
یعنی ہر ایسا عمل اور عقیدہ جس کے ثابت ہونے میں دل کھٹکتا ہو اسے سرے سے چھوڑ دیا جائے اور حتمی، یقینی اور احتیاط والی بات کو لے لیا جائے۔(اسی سے معلوم ہوا کہ نئے نئے معاملات اور کاروبار جو دنیا میں ہورہے ہیں وہ اس اصول کے تحت نہیں آئیں گے۔اسی طرح نت نئی ایجادات وسہولیات بھی اس اصول کے تحت نہیں آئیں گی۔اس اصول کا تعلق صرف عقائد اور عبادات سے ہے،معالجات، معاملات اور اشیا سے نہیں۔)
عبرت انگیز واقعہ:
ایک شخص بہت عبادت گزار اور دین دار تھا۔ شیطان نے اسے بہکایا کہ تم عبادت کر رہے ہو تم سے پہلے بھی سارے لوگ یہی عبادت کیا کرتے تھے اور سارا زمانہ آج بھی یہی عبادت کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں تمہاری کوئی قدر و منزلت پیدا نہیں ہوگی۔ تمہیں چاہیے کہ تم کوئی نئی بات ایجاد کرو اور اسے لوگوں میں پھیلاؤ! پھر دیکھنا تمہاری کیسی شہرت ہوگی۔ ہر جگہ تمہارا چرچا ہوجائے گا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کی وہ نئی باتیں لوگوں میں پھیل گئیں اور ایک زمانہ اس کی تقلید کرنے لگا۔ اب اسے بڑی ندامت ہوئی کہ میں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اس نے وہ ملک چھوڑ دیا اور گوشہ نشین ہوکر عبادتوں میں مشغول ہوگیا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسے جواب ملا: ’’اگر گناہ صرف تیرا ہوتا تو میں اسے معاف کردیتا، لیکن تو نے تو عام لوگوں کو بگاڑ دیا اور انہیں گمراہ کردیا جس پر چلتے چلتے وہ مر گئے ان کا بوجھ تجھ سے کیسے ہٹے گا۔ میں تیری توبہ قبول نہیں کروںگا۔‘‘ (تفسیر ابنِ کثیر)