عورت کس طور پر وصیت کرسکتی ہے؟

فتویٰ نمبر:4005

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

عورت اپنی وصیت کس طور پر لکھے؟ نیز بتاٸیں کہ وصیت کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا لکھنا چاہیے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

وصیت کہتے ہیں بطور احسان کسی کو مرنے کے بعد اپنے مال کے عین یا اس کی منفعت کا مالک بنانا۔

قانون وراثت کے ضمن میں شریعت مطہرہ نے قانون وصیت بھی جاری فرمایا ہے جس کی رو سے ہر مسلمان کو اپنی جاٸداد کے ایک تہاٸی حصہ کے متعلق غیر وارث کے حق میں وصیت کا حق دیا گیا ہے۔

نیز وصیت کے ایک معنی نصیحت اور تاکید کے بھی ہوتے ہیں جس کی رو سے ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی وصیت میں حقوق واجبہ کی اداٸی سے متعلق تاکید بھی کرے اور لواحقین کے لیے نصیحتیں بھی۔

عورت اپنی وصیت میں مندرجہ ذیل امور ضرور ذکر کرے:

١۔میری وفات کے بعد سنت کے مطابق تجھیز و تکفین کی جاۓ، کسی بھی قسم کی غیر شرعی اور بدعت والی رسم نہ کی جاۓ۔

٢۔پردے کا مکمل اہتمام ہو محارم کے علاوہ کوٸی جنازہ نہ دیکھے۔

٣۔تجھیز و تکفین اور تدفین کے معاملات جلدی نمٹائےجاٸیں

٤۔ورثا کو توحید پر قاٸم رہنے، نماز وغیرہ کی پابندی کرنے کی تلقین بھی ہو۔

٥۔اگر جاٸیداد وغیرہ ملکیت میں ہے تو خاص طور سے تقسیم وراثت کے لیے شرعی طریقہ کار اختیار کرنے کی تلقین ہو۔

٦۔اگر تمام ورثا مال دار ہیں یا ترکہ اتنا ذیادہ ہے کہ وہ ترکہ ملنے کے بعد غنی ہوجاٸیں گے تو بہتر ہے کہ کسی دینی مصرف میں اپنے مال کے ایک تہاٸی سے کم میں وصیت کردی جائے تاکہ صدقہ جاریہ کا ذریعہ ہوجائے۔

٧۔کوٸی رشتہ دار وراثت کا مستحق نہ ہو تو اس کے لیے بھی ایک تہاٸی مال میں سے کچھ مال کی وصیت کردی جاۓ۔

٨۔وصیت میں جن امور کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے وہ حقوق واجبہ کی اداٸی سے متعلق ہیں، مثلا: قضا نمازیں ہوں یا روزے، زکوة ادا انہ کی ہو یا کسی کا قرض دینا ہو یا حج فرض ادا نہ کیا ہو تو حج بدل کی وصیت کرجاۓ۔

یہ تمام حقوق بھی تہاٸی مال میں سے ادا کیے جاٸیں گے۔

١۔”عن ابی ھریرةؓ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ تصدق علیکم عند وفاتکم بثلث اموالکم زیادة لکم فی اعمالکم۔“

(ابن ماجہ: ٢٧٠٩)

٢۔”عن ابی ھریرةؓ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الرجل لیعمل بعمل اہل الشر سبعین سنة فیعدل فی وصیتہ فیختم لہ بخیر عملہ فیدخل الجنة۔“

( ابن ماجہ: ٢٧٠٤)

٣۔” عن جابر بن عبد اللہؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مات علی وصیة مات علی سبیل وسنة و مات علی تقی و شہادة و مات مغفورا لہ۔“

( ابن ماجہ: ٢٧٠١)

فقط۔

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ٢١۔٥۔١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ٢٠١٩۔١۔١٩

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں