اذان کے جواب دینے کا حکم

فتویٰ نمبر:4098

سوال: السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم جناب مفتیان کرام!

اذان کے جواب دینے کی کیا اہمیت ہے؟ کن حالتوں میں جواب دینے کی رخصت ہے؟ اور حائضہ کے لیے اذان کا جواب دینے میں کیا حکم ہے عوام میں اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں؟ رہنمائی فرمادیں!

والسلام

الجواب حامداو مصليا

کلمات اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور عملاً جواب دینا واجب ہے یعنی کام کاج کو چھوڑ کر نماز کی جگہ پر آنا ، البتہ حائضہ کے بارے میں اختلاف ہے: بعض فقہاء کے نزدیک حائضہ کو اذان کا جواب نہیں دینا چاہیے، کیونکہ حائضہ اور نفساء کے لیے اذان کے جواب نہ دینے کی علت شامی نے یہ لکھی ہے کہ چونکہ وہ دونوں حالتوں حیض ونفاس میں نماز کی عملاً مخاطب نہیں ہیں، اس لئے اذان کا قولاً جواب دینا بھی ان پر واجب نہیں ہے۔

جبکہ دیگر فقہاء فرماتے ہیں کہ کلمات اذان کا جواب دینا بلاشبہ جائز ہے کیونکہ بالفعل اجابت سے عاجز ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ کلمات اذان کو دہرانا بھی ممنوع ہے۔ 

لہذا اس عدم وجوب کے باوجود اگر حائضہ اور نفساء کلماتِ اذان کو دہرائیں تو اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ، اس لیے ایسا کرنا ان کے لیے جائز ہے۔

لانها ليسا من أهل الإجابة بالفعل فكذا بالقول.

( شامى: ٢/ ٣٥)

ویجوزللجنب والحائض الدعوات وجواب الاذان ونحوذلک کذا فی السراجیة.

(فتاوی ہندیہ: ۱ / ۳۸)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ١٨ جمادى الثانى ١٤٤٠

عیسوی تاریخ: ٢٤ فرورى ٢٠١٩

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں