بہن بھائی آپس میں نکاح کیوں نہیں کر سکتے

فتویٰ نمبر:2054

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! 

ایک غیر مسلم نے سوال کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے اور بیٹیاں تھیں ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کرنے کے بعد اپنی بہن سے شادی کر لی اور یوں نسل بڑھی ! 

جب اس وقت بہن بھائ کی شادی ہو سکتی تھی تو اب کیوں منع ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

شریعت کے کسی بھی حکم کی حکمت سمجھنے یا جاننے سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ ہم یہ جانیں کہ شارع کون ہے؟ 

شارع حقیقی اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔ اور اللہ کے کسی بھی حکم کی حکمت جاننے کے لیے اللہ کی ذات پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ اس کے بغیر حکمت کا سمجھنا شاید مشکل ہو۔الا ان یشاء اللہ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ بہن اور بھائی کے نکاح کو جائز کا حکم دینے والی ذات بھی اللہ کی ہے،اسی طرح ان کے نکاح کو حرام کرنے والی ذات بھی اللہ کی ہے۔ چنانچہ اس نے ایک نبی کی شریعت میں اس نکاح کو حلال قرار دیا جبکہ باقی انبیاء کی شریعت میں اس نکاح کو حرام قرار دیا۔

چنانچہ جتنے بھی انبیاء دنیا میں آئے وہ تمام اصول میں متفق تھے۔ یعنی توحید، قیامت، فرشتوں کا وجود، جنت اور دوزخ وغیرہ۔ جبکہ فروعات میں تمام انبیاء ایک دوسرے سے مختلف رہے ہیں ۔مثلاً: نکاح ، طلاق کے احکام، روزوں کے مسائل،نماز کی تعداد،زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل۔

پھر دوسری بات یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں بھی بہن اور بھائی کا آپس میں نکاح جائز نہیں تھا۔کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں ایک حمل سے پیدا ہونے والی اولاد بہن بھائی شمار ہوتے تھے۔جو اولاد دوسرے حمل سے ہوتی وہ پہلے حمل سے ہونے والی اولاد کے بہن بھائی شمار نہیں ہوتے تھے۔ 

’’چنانچہ مفسرین مثلا امام ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد جوڑوں کی صورت میں پیدا ہوتی تھی،یعنی ایک حمل سے لڑکا اور لڑکی دو ہوتے تھے پھر دوسرے حمل سے بھی اسی طرح تو اس کا لڑکا اور دوسرے حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتاتھا۔‘‘ (۱)

معلوم ہوا کہ یہ نکاح بھی مطلقاً جائز نہیں تھا بلکہ مشروط (conditional) تھا یعنی ایک حمل سے پیدا ہونے والے بہن بھائی تھے۔ ان کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی اولاد سے جائز تھا۔پھر یہ حکم تکوینی طور پر بنی نوع انسانوں کی نسل بڑھانے کے لیے ضروری بھی تھا وگرنہ نسل انسانی کیسے بڑھتی؟ 

لیکن اس کے بعد جو انبیاء آئے ان کی شریعت میں بہن اور بھائی کا آپس میں نکاح حرام تھا۔ اور شریعت محمدیہ میں بھی اس نکاح کوحرام کیا گیا ۔ (۲)

(۱)وَكَانَ مِنْ خَبَرِهِمَا فِيمَا ذَكَرَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ، أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ شَرَعَ لِآدَمَ، عَلَيْهِ السَّلَامُ، أَنْ يُزَوِّجَ بَنَاتِهِ مِنْ بَنِيهِ لِضَرُورَةِ الْحَالِ، وَلَكِنْ قَالُوا: كَانَ يُولَد لَهُ فِي كُلِّ بَطْنِ ذَكَرٌ وَأُنْثَى، فَكَانَ يُزَوِّجُ أُنْثَى هَذَا الْبَطْنِ لِذِكْرِ الْبَطْنِ الْآخَرِ ( تفسیر ابن کثیر:۳/۸۲)

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَاتُکُمْ۔(النساء:۲۳)

وتحرم أختہ لأب وأم أو لأحدہما۔ (مجمع الأنہر : باب المحرمات ،۱؍۳۲۳، دار إحیاء التراث العربي بیروت)

فقط

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ11 ربیع الثانی 1440ھ

عیسوی تاریخ:18 دسمبر 2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں