بلی اور چوہے کےبرتن کا حکم

سوال:بلی یا چوہا برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کا اور اس سالن یا دودھ کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:گھریلو جانور ،جیسے بلی یا چوہا وغیرہ کا جھوٹا مکروہ تنزیہی ہے۔ اگر یہ جانور کسی برتن، دودھ یا سالن میں منہ ڈال دیں تو اگر آدمی مال دار ہے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اس سے نہ کھائے بلکہ کسی غریب کو صدقہ کردے۔ اور اگر وہ غریب ہے تو اس کے حق میں کوئی کراہت نہیں ، وہ کھا سکتا ہے۔

========================

حوالہ جات:

۱- حدثنا عبداللہ بن مسلمہ: حدثنا عبد العزیز رب داؤد بن صالح بن دینار التمار عن اُمّہ انّ مولاتھا ارسلتْھا الھریسہ الی عائشہ رضی اللہ عنھا فوجدتْھا تُصلی، فاشارتْ الیَّ اَنْ ضَعِیَھا، فجاءتْ ھِرةٌ فاکلتْ منھا، فلمّا اِنصرفتْ اکلتْ من حیث اکلتِ الھرةُ، فقالتْ : اِنَّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: (( اِنّھا لیستْ بنجسٍ، اِنّما ھی مِن الطوافینَ علیکم)) وقد رایتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتوضاُ بفضلھا۔

( ابو داود ، حدیث نمبر ۷۶)

ترجمہ:

صالح بن دینار التمار اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی مالکہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف ھریسہ بھیجا تو انہوں نے ان کو نماز پڑھتے پایا، انہوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ اس کو رکھ دو، پھر بلی آئی اور اس سے کھا لیا۔ جب عائشہ رضی اللہ عنھا نماز سے فارغ ہوئیں تو جہاں سے بلی نے کھایا تھا انہوں نے وہیں سے کھایا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ بلی نجس نہیں ہے، یہ تو تمہارے گھر بار بار آنے والوں میں سے ہے”۔ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ بلی کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرتے تھے۔

۲- عن کبشہ ابنة کعب بن مالک وکانت عبد ابی قتادہ انّ ابا قتادة دخل علیھا، قالتْ: فسَبکتُ لَہٗ وَضُوءً، قالتْ: فجاءتْ ھِرَّةٌ تشرب، فاَصْغٰی لھا الاِناءَ حتی شرِبتْ، قالتْ كبشةُ: فرآني اَنظرُ اليه! فقال: اَتَعجبينَ يا ابنة اخي؟ فقلتُ: نعم، فقال: اِنَّ رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: إنھا لیستْ بنجسٍ انَِما ھِیَ مِن الطوّافینَ علیکم اَو الطوافات۔

وھو قول اکثر العلماء من اصحاب النبی صلي الله عليه وسلم والتابعین و مَن بعدَھم مثلُ الشافعی و احمد و اسحق : لَم یَرَوْا بِسؤرِ الھرةِ باْساً۔ (ترمذی:۹۲)

ترجمہ:

کبشہ رضی اللہ عنھا اپنے شوہر کے گھر تھیں کہ ان کے سسر (ابو قتادہ) آئے تو انہوں نے سسر کے لئے وضو کا پانی رکھا، بلی آئی اور اس پانی سے پینے لگی تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بلی کے لئے برتن کو جھکایا یہاں تک کہ اس نے پی لیا۔ کبشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ اس معاملہ میں غور کریں! انہوں نے کہا: تم حیران ہو رہی ہو اے میرے بھائی کی بیٹی؟ تو میں نے کہا جی، انہوں نے کہا کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ یہ نجس نہیں ہے، یہ تو بار بار تمہارے پاس آنے والوں میں سے ہے یا بہت زیادہ آنے والوں میں سے ہے۔”

اور یہی قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر علماء کرام صحابہ ، تابعین اور ان کے بعد والوں کا ہے جیسا کہ امام شافعی، امام احمد اور اسحق رحمھم اللہ عنھم : ان سب کے مطابق بلی کے جھوٹے میں کوئی حرج نہیں۔

۳- سؤر الھرة طاھر مکروہ۔ (ھدایہ: ۴۴/۱)

۴- مکروہ استعمالہ مع وجود غیرہ وھو سور الھرة… (نور الایضاح: ص۲۸)

۵- بہشتی زیور میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“بلی کا جھوٹا پاک تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ دودھ یا سالن وغیرہ میں بلی نے منہ ڈال دیا تو اگر اللہ نے سب کچھ دیا ہے تو اسے نہ کھائے اور اگر غریب آدمی ہے تو کھالے اس میں کوئی حرج اور گناہ نہیں بلکہ ایسے شخص کے واسطے مکروہ بھی نہیں۔ “

(بہشتی زیور مدلل و مکمل : ۷۹، ط: دارالاشاعت)

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں