دوگانہ طواف کا حکم

فتویٰ نمبر:4081

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

کسی نے بارہ تیرہ سال پہلے عمرہ کیا. طواف کے بعد کے نفل پڑھنے سے رہ گئے اور سعی کے بعد احرام کهول لیاگمان ہے کہ کسی یاد دلانے پر شاید پڑھ لیے ہوں ورنہ یاد نہیں ہوٹل میں تو نوافل پڑھے مسجد میں اس عمرہ کے بعد حطیم کے نفل یاد ہیں۔

کیا دم واجب ہے یا حدود,مسجد میں ادا کیے گئے نفل اس کے قائم مقام ہو جائیں گے؟ یا صدقہ ادا کرنا ہوگا؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

دوگانہ طواف ہر طواف کے بعد واجب ہے چاہے

طواف فرض ہو یا واجب ہو سنت ہو یا نفل۔

ورکعتا الطواف عندنا واجبۃ۔(مافی فتاویٰ قاضی خان(۱۳۹/۱) 

طواف ختم کرنے کے بعد بلا تاخیر طواف کی دو رکعت پڑھنا مسنون ہے، اور تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔ البتہ اگر طواف کے مکمل ہونے کے بعد وقت مکروہ ہو تو اس کے گزر جانے کے بعد پڑھے۔

ولا یکرہ الطواف فی الاوقات التی یکرہ الصلاۃ فیہا الا انہ لا یصلی رکعتیہ فیہا۔ (غنیۃ الناسک ۹۸، شامی بیروت ۳؍۴۵۳، زکریا ۳؍۵۱۲) 

اس دوگانہ کا حرم میں پڑھنا سنت ہے اور مقام ابراہیم اور بیت اللہ کو سامنے لے کر پڑھنا افضل ہے اگر وہاں جگہ نہ ملے تو پوری مسجد الحرام میں کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں۔

{وَاتَّخِذُ وا من مَقَامِ إِبرَاهيم مُصَلَّی }(سورۃ بقرۃ /125)** 

واختم الطواف برکعتین فی المقام او حیث تیسر من المسجد۔ (کنز مع البحر زکریا ۲؍۵۷۹، ومثلہ فی الدر المختار ۳؍۵۱۲-۵۱۳، مناسک ملا علی قاری ۱۳۷-۱۳۸، ہندیۃ ۱؍۲۲۶، تبیین الحقائق ۲؍۲۷۴، تاتارخانیۃ ۳؍۴۹۹) 

اگر مسجد حرام میں ادا نہ کی تو کہیں بھی ادا کرلیں اگر وطن لوٹ آئیں تو وطن پنہچ کر ادا کرلیں، واجب ادا ہوجائے گا۔ تاخیر کی وجہ سے دم لازم نہیں ہوگا۔ ہاں جب تک ادا نہ کیے ذمے سے ساقط نہیں ہوں گے۔

وفی المنحۃ الخالق علی البحر الرائق(۵۸۰/۲): (فواجبۃ علی الصحیح) ای بعد کل طواف فرضا کان اوواجبا او سنۃ او نفلا، ولا یختص جوازھا بزمان ولا بمکان ولا تفوت، ولو ترکھا لم تجبر بدم۔ 

لمافی الھندیۃ(۲۲۶/۱): واذا فرغ من الطواف یأتی مقام ابراھیم علیہ السلام ویصلی رکعتین وان لم یقدر علی الصلاۃ فی المقام بسبب المزاحمۃ یصلی حیث لایعسر علیہ من المسجد کذا فی الظھیریۃ وان صلی فی غیر المسجد جاز۔ 

وفی الطحطاوی علی الدر(۴۹۹/۱): قولہ وھل یتعین المسجد قولان) المعتمد أن تعینہ علی سبیل الافضلیۃ فلو صلاھما بعد رجوعہ الی اھلہ اجزأہ لانھما علی التراخی وھذا قول الامام واصحابہ …

مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دوگانہ طواف کی نیت سے آپ نے کہیں بھی دو نفل پڑھ لیے تھے تو واجب ادا ہوگیا۔ اور کوئی دم اور صدقہ لازم نہیں۔ 

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:10/10/1440

عیسوی تاریخ:14/6/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں