ای ایف یو لائف انشورینس (efu life insurance) کے دفتر میں ملازمت کرنے کا حکم

فتویٰ نمبر:3052

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

ای ایف یو لائف انشورینس (efu life insurance) کی آفس میں جاب کرنا کیسا ہے؟ کیا اس میں بھی سود ہوتا ہے؟

و السلام

الجواب حامدا و مصليا

مروجہ انشورنس کمپنی کی ملازمت ایسی ہی حرام ہے جیسے مروجہ بینک کی ملازمت حرام ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے: 

انشورنس کا مقصد: 

انشورنس (لائف انشورنس ہو، یا املاک و غیرہ کی انشورنس ہو) انسان مستقبل میں پیش آنے وا لے امکانی خطرات سے حفاظت اور بعض نقصانا ت کی تلا فی کی یقین دہا نی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 

انشورنس کے ساتھ معاملہ کی صورت:

مروجہ انشورنس میں – جن میں ای ایف یو لائف انشورینس (efu life insurance) بھی شامل ہے – کسٹمر ایک معینہ مدت تک ایک مقررہ رقم قسط وار انشورنس کمپنی کو ادا کرتا رہتا ہے۔ اگر اس مقررہ مدت کے درمیان اس کی جا ن و مال و املاک کو کوئی خطرہ لا حق ہو گیا، تو انشورنس کمپنی اس کو یا اس کے وارثین کو مقررہ رقم ادا کرے گی۔ اگراس مقررہ مدت میں کو ئی خطرے پیش نہ آیا، تو قسط وار اد اکردہ پوری رقم سود کے ساتھ واپس کردی جا ئے گی۔ 

اس تفصیل سے معلوم ہو رہا ہے کہ مروجہ انشورنس کمپنیز کی بنیاد صرف سودی معاملات پر نہیں، بلکہ غرراور قمار(جوا) پر بھی ہے۔ امام سرخسی کےنزدیک غرر سے مراد ایسا معاملہ ہے جس کا نتیجہ مبہم اور غیر یقینی ہو (۱)، علامہ عینی نے غرر کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس کا واقع ہونا نا معلوم ہے۔ (۲) جبکہ قمار (جو کہ قمر‘‘ سے ماخوذ ہے جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی گھٹتا ہے)، میں ہر ایک شریک کے لیے ممکن ہے کہ اس کا مال دوسرے کے پاس چلا جائے اور یہ بھی امکان ہے کہ دوسرے کا مال یہ ہڑپ لے۔ (مستفاد: نفائس الفقہ: ۱ /۲۳۱)

قمار کی حرمت نص سےثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔” (۳)

انشورنس کمپنی میں ملازمت کا حکم: 

جب سود خوری، سودی معاملات لکھنا اور ان پر گواہی دینا سخت حرام ہے(۴)، (۵)، اور ان سے بچنا لازم ہے تو سود، غرر اور قمار پر مبنی معاملات سے بچنا بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔ اسی بنیاد پر مروجہ انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا نا جائز قرار دیا گیا:

“بطور ایجنٹ انشورنس کاکام کرنا اور اس پر کمیشن لینا یہ سودی کاروبار ہے کسی صورت میں جائز نہیں ہے؛ لہٰذا اس کو ذریعہ معاش بنانا نا جائز اور حرام ہے۔ قرآن کریم اوراحادیث میں اس کی حرمت بیان کی گئی ہے۔” (۶)

(efu life insurance) کا کوئی شریعہ ایڈوائزر نہیں، شریعہ بورڈ تو دور کی بات۔ لہذا ان کا دعویٰ کہ ان کے معاملات وہ شرعی اصولوں کے مطابق ہیں، بالکل غلط ہے۔ اس ادارے کے ساتھ معاملہ کرنا، وہاں پر نوکری کرنا ایسا ہی ممنوع ہے جیسے کسی دوسری مروج انشورینس کمپینی میں کام کرنا ممنوع اور حرام ہے۔

(efu life insurance) کے بارے میں جامعہ دار العلوم کراچی کا تفصیلی فتویٰ موجود ہے جس کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ (۷)

• (۱) الغرر ما یکون مستور العاقبۃ (المبسوط: ۱۶ /۱۹۴)

• (۲) الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔ (عمدۃ القاری: ۸ / ۴۳۵)

• (۳) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورۃ مآئدۃ: ۹۰)

• (۴) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔

یعنی: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا) (سورۃ بقرہ: ۲۷۸ – ۲۷۹)

• (۵) عن جابرؓ قال: ’’ لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء (صحیح مسلم: ۲ /۲۷) 

یعنی: آپ ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے والے، سودی معاملے کو کو لکھنے والے اور اس پر گواہی کرنے والوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا: یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔

• (۶) (مستفاد: ایضاح النوادر: ۱ / ۱۲۷؛ آپ کے مسائل اوران کا حل: ۶ / ۲۵۸؛ فتاوی قاسمیہ: ۲۰ / ۴۲۸)

• (۷) ملاحظہ: فتوی نمبر ۱۲۲۵/۰۹ جامعہ دار العلوم کراچی

فقط ۔ واللہ اعلم 

قمری تاریخ: ۱۶ ربیع الثانی ١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ۲۵ دسمبر ٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں