گھر سے مکڑی کے جالے ہٹانا

سوال:”شیطان تمہارے گھروں میں اس جگہ رہتا ہے جہاں مکڑی جالے تنتی ہے، اپنے گھروں میں مکڑی کے جالے مت رہنے دیا کرو، کیونکہ اس سے گھر میں غربت وپریشانیاں آتی ہیں”۔

(محمد صلی اللہ علیہ وسلم)

کیا یہ درست ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ اسلام نے صفائی کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور نظافت میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے گھر کو ہر قسم کے حشرات سے اور ان کے ٹھکانوں سے پاک رکھا جائے، اسی میں سے مکڑی کے جالے بھی ہیں اور مکڑی کے جالے ایک بار جب بننے شروع ہو جاتے ہیں تو پھر بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، لہذا اس کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، لیکن اس متعلق کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) روایت سے کوئی مستند بات معلوم نہیں ہوتی، البتہ کچھ انتہائی کمزور ناقابل اعتبار روایات منقول ہیں:

ثعلبی نے اپنی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے جس کی سند انتہائی کمزور ہے۔

“اپنے گھروں کو مکڑی کے جالوں سے صاف رکھو کیونکہ یہ جالے فقر کا سبب بنتے ہیں”۔

رواه الثعلبي في تفسيره (7/280) من طريق عبدالله بن ميمون القداح، قال: سمعت جعفر بن محمد يقول: سمعت أبي يقول: قال علي بن أبي طالب: طهّروا بيوتكم من نسيج العنكبوت، فإنّ تركه في البيوت يورث الفقر.

شریعتِ محمدیہ نے فقر کے أسباب میں سے سب سے بڑا سبب اللہ کی نافرمانی کو قرار دیا ہے، باقی کسی انسان یا جاندار کی وجہ سے فقر کا آنا یہ محض عوام میں مشہور خرافات ہیں جن کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور انکو پھیلانا درست نہیں۔

سوال میں مذکور الفاظ نہ تو سند صحیح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہ ہی سیدنا علی رضى اللہ عنہ سے؛ لہذا ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت علی رضى اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔

قال النبي صلى الله عليه وسلم:

“من أحدَث في أمرِنا – أو دينِنا – هذا ما ليس فيه فهو رَدٌّ . وفي لفظٍ ( من عمل عملًا ليس عليه غيرُ أمرِنا فهو رَدٌّ”.

(أخرجه البخاري (2697)، ومسلم (1718) باختلاف يسير)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں