غسل خانے میں پیشاب کرنے کاحکم

سوال:غسل خانے میں پیشاب کرنے کا کیا حکم ہے؟

الجواب باسم ملھم بالصواب

ایسا غسل خانہ جس میں سے پیشاب نکلنے کا راستہ نہ ہو یا چھنٹیں اڑ کر کپڑوں یا جسم پر آنے کا خطرہ ہو تو اس میں پیشاب کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر عذر ہو یا غسل خانہ میں نکاسی وغیرہ کا انتظام ہو تو پھر مکروہ نہیں،تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ غسل خانہ میں پیشاب نہ کیا جائے،کیوں کہ اس سے وسوسہ کی بیماری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات :

1: لما فی الحدیث : ابوداؤد (1/16 لدھیانوی)؛

قال: لقيت رجلا صحب النبي صلى الله عليه وسلم كما صحبه أبو هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يمتشط أحدنا كل يوم، أو يبول في مغتسله»

ترجمہ :

(ثقہ تابعی اور اہل بصرہ کے بڑے فقیہ حمید حمیری ؒکہتے ہیں) میں ایک صاحب سے ملا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یافتہ تھے جیسے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تھے ، انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ہمارا کوئی شخص ہر روز کنگھی کرے پا اپنے غسل خانے میں پیشاب کرے ۔

2:فی الدر المختار مع رد المحتار:

(وكذا يكره) (أو) يبول (في موضع يتوضأ) هو (أو يغتسل فيه) لحديث «لا يبولن أحدكم في مستحمه فإن عامة الوسواس منه» .

(قوله: لحديث إلخ) لفظه كما في البرهان عن أبي داود «لا يبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل أو يتوضأ فيه، فإن عامة الوسواس منه» والمعنى موضعه الذي يغتسل فيه بالحميم، وهو في الأصل الماء الحار، ثم قيل للاغتسال بأي مكان استحمام؛ وإنما نهي عن ذلك إذا لم يكن له مسلك يذهب فيه البول أو كان المكان صلبا فيوهم المغتسل أنه أصابه منه شيء فيحصل به الوسواس كما في نهاية ابن الأثير. اهـ. مدني.

واللہ اعلم بالصواب

11ربیع الثانی1443 ھ

18 نومبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں