امام سے پہلے رکوع سے سر اٹھانا

فتویٰ نمبر:3018

سوال:جماعت میں امام رکوع میں گیا ایک مقتدی کو چند سیکنڈ لگے رکوع میں جانے میں ( امام اکثر رکوع لمبا کرتے ہیں مقتدی کو مشکل لگتا ہے وہ کبھی چند سیکنڈ تاخیر کرتا ہے رکوع میں جانے میں ) پھر امام رکوع سے کھڑا ہو گیا۔ یعنی جب تک مقتدی رکوع میں گیا امام کھڑا ہو گیا۔ 

یا

۲)یہ رکوع میں امام کے ساتھ گیا لیکن امام سے پہلے کھڑا ہو گیا۔امام کے سمع اللہ سے پہلے پہلے۔ نماز کا کیا حکم ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

سوال میں دو جزء مذکور ہیں۔پہلے جز کا جواب یہ کہ: 

ایسا شخص اگر شروع سے امام کے ساتھ نماز میں شریک ہے اور امام کے کھڑا ہونے کے بعد رکوع میں جائے تو اس کی نماز درست ہوگئی، ایساشخص لاحق کے حکم میں داخل ہوتا ہے۔(۱)

دوسرے جز کا جواب یہ ہے کہ:

احادیث مبارکہ میں امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (۲)لہٰذا امام جب رکوع سے سر اٹھائے تو اس کے بعد مقتدی کو رکوع سے سر اٹھانا چاہئے۔پہلے سر اٹھانا مکروہ تحریمی اور مذموم ہے۔ البتہ نماز اس صورت میں ہو جائے گی ۔لیکن مکروہ ہوگی۔ (۳)

اور اگر ابھی امام رکوع میں ہی ہے تو اس کے لیے بہتر یہ کہ وہ رکوع میں لوٹ آئے ۔پھر امام کی متابعت کرتے ہوئے رکوع سے سر اٹھائے۔ (۴)

(۱)’’اجمعوا أنّہ لو انتھی الی الامام وھو قائم فکبّر ولم یرکع مع الامام حتی رکع الامام، ثم رکع أنّہ یصیر مدرکا لتلک الرکعۃ۔‘‘(الھندیۃ:۱۲۰/۱)

(واللاحق من فاتتہ) الرکعات (کلھا أو بعضھا) لکن (بعد اقتدائہ بعذر کغفلۃ وزحمۃ… وکذا بلا عذر… ویبدأ بقضاء ما فاتہ عکس المسبوق ثم یتابع امامہ إن امکنہ ادراکہ والا تابعہ۔( الشامیۃ :۵۹۴/۱)

(۲)أما یخشی أحدکم أو ألا یخشی أحدکم اذا رفع رأسہ قبل الامام أن یجعل اللّٰہ رأسہ رأس حمار أو یجعل اللّٰہ صورتہ صورةَ حمار؟ (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب اثم من رفع رأسہ قبل الامام،۹۶/۱)

”(کیا تم میں سے کوئی امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتے وقت اس سے نہیں ڈرتا، کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر کے مانند یا اس کی صورت کو گدھے کی صورت کے مانند بنادے؟“)

عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلّمنا یقول، لا تبادروا الامام․ اذا کبر فکبروا، واذا قال: ولا الضالین فقولوا: آمین، واذا رکع فارکعوا، واذا قال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ فقولوا: اللّٰہم ربنا لک الحمد․

وفی طریق آخر: ولا ترفعوا قبلَہ․ (الصحیح المسلم، کتاب الصلاة، باب ائتمام المأموم بالامام، ۱۷۷/۱، قدیمی)

(۳) علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”فاعلم أنہ اتفق کلہم علی أن المبادرة من الامام مکروہ تحریماً․ (فیض الباری، ۲۱۶ /۲، المجلس العلمی: ڈابھیل)

(۴)وقال ابن مسعود: اذا رفع قبل الامام یعود، فیمکث بقدر ما رفع، ثم یتبع الامام(الصحیح البخاری، کتاب الأذان، باب انما جعل الامام لیوٴتم بہ،۹۵/۱، قدیمی)

رفع رأسہ من الرکوع أو السجود قبل الامام عاد لتزول المخالفة بالموافقة․ (غنیة المستملی:۵۳۳)

فقط

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:16 ربیع الثانی 1440ھ

عیسوی تاریخ:23 دسمبر 2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں