جب مقدر میں سب کچھ لکھا ہوتاہے تو انسان خوکشی اور دیگر گناہ کیسے کرلیتا ہے

ایک سوال: جب الله تعالی نے یہ  تمام باتیں پہلے سے ہی لکھ دی ہیں کہ  کون کہاں اور کیسے مرے گا تو پھر انسان خودکشی اور دیگر گناہ کیسے کرلیتا ہے ؟ 

اور پھر وه خود کیسے قصوروار ٹهرتا ہے ؟

تقدیر کے متعلق جانیے 

تقدیر برحق ہے۔ اور اس کو ماننا شرطِ ایمان ہے۔ لیکن تقدیر کا مسئلہ بے حد نازک اور باریک ہے کیونکہ تقدیر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے  اور آدمی صفاتِ الٰہیہ کا پورا احاطہ نہیں کرسکتا۔ بس اتنا عقیدہ رکھا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم تھا  اور اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے سے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا تھا  پھر دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے۔

اس کی دو قسمیں ہیں۔ 

بعض میں انسان کے ارادہ و اختیار کا بھی دخل ہے  اور بعض میں نہیں۔ جن کاموں میں انسان کے ارادہ و اختیار کو دخل ہے  ان میں سے کرنے کے کاموں کو کرنے کا حکم ہے اگر انہیں اپنے ارادہ و اختیار سے ترک کرے گا تو اس پر موٴاخذہ ہوگا۔

اور جن کاموں کو چھوڑنے کا حکم ہے ان کو اپنے ارادہ و اختیار سے چھوڑنا ضروری ہے۔نہیں چھوڑے گا تو مؤاخذہ ہوگا۔ الغرض جو کچھ ہوتا ہے تقدیر کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن اختیاری امور پر چونکہ انسان کے ارادہ و اختیار کو بھی دخل ہے  اس لئے نیک و بد اعمال پر جزا و سزا ہوگی

خلاصہ کلام:   تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے۔ اور تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کائنات اور کائنات کی ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے، اور کائنات کی تخلیق سے پہلے ہر چیز کا علمِ الٰہی میں ایک اندازہ تھا، اسی کے مطابق تمام چیزیں وجود میں آتی ہیں خواہ ان میں انسان کے اختیار و ارادہ کا دخل ہو یا نہ ہو، اور خواہ اسباب کے ذریعہ وجود میں آئیں یا بغیر ظاہری اسباب کے۔

جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اسباب کے ماتحت رکھا ہے ان کے جائز اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے، اور ناجائز اسباب سے پرہیز کرنا فرض ہے۔

ہمارے لئے اس سے زیادہ اس مسئلہ پر کھود کرید جائز نہیں نہ اس کا کوئی فائدہ ہے۔

آپ کے سوال کا جواب 

تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ فلاں شخص اپنے ارادہ و اختیار سے اپنے آپ کو قتل کرکے سزا کا مستحق ہوگاچونکہ اس نے اپنے ارادہ و اختیار کو غلط استعمال کیا اس لئے سزا کا مستحق ہوا۔

موت تو اسی طرح لکھی تھی مگر اس نے اپنے اختیار سے خودکشی کی اس لئے اس کے فعل کو حرام قرار دیا گیا۔

عقیدہٴ تقدیر رکھنے کے باوجود آدمی کو دوسرے کے برے افعالِ اختیاریہ پر غصہ آتا ہے مثلاً: کوئی شخص کسی کو ماں بہن کی گالی دے تو اس پر ضرور غصہ آئے گا، حالانکہ یہ عقیدہ ہے کہ حکمِ الٰہی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا!

نوٹ: بندے کا قصور تو ظاہر ہے کہ اس نے برا کام اپنے اختیار سے کیا تھا اور مقدر میں بھی یہی لکھا تھا کہ وہ اپنے اختیار سے برا کام کرکے قصوروار ہوگا اور سزا کا مستحق ہوگا۔

تنبیہ: برا کام کرکے مقدر کا حوالہ دینا خلافِ ادب ہے آدمی کو اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہئے۔

خیر اور شر سب خدا کی مخلوق ہے، لیکن شیطان شرکا سبب و ذریعہ ہے.

کتاب شرح فقه الاکبر:ص67

اپنا تبصرہ بھیجیں