جانورتول کرلینےکا حکم

فتوی نمبر:797

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

کیا قربانی کے جانور کو تول کر خرید سکتے ہیں

والسلام

الجواب حامدۃو مصلية

اگرخریدار اور فروخت کنندہ زندہ جانور کووزن کرکے خریدوفروخت پرراضی ہوں توزندہ جانور کووزن کرکے نقد رقم یاغیرجنس کے ذریعہ خریدنا اور فروخت کرنا دونوں جائز ہیں؛ بشرطیکہ متعین جانورکافی کلو کے حساب سے نرخ کرلیا گیا ہو؛ نیزجانور کا وزن کرنے کے بعد اس کی قیمت بھی متعین کرلی گئی ہو، جس کی صورت یوں ہوگی کہ خریدار کومثلاً ایک بکرے کی ضرورت ہے، تاجر کے پاس جاکر وہ بکروں میں ایک بکرا منتخب کرلیتا ہے اور تاجر اس کوبتادیتا ہے کہ اس بکرے کا نرخ پچاس روپے کلو ہے اور اس بکرے کوخریدار کے سامنے وزن کرکے بتادیتا ہے کہ مثلاً یہ بیس کلو ہے، اب اگرخریدار اس کوقبول کرلے توبیع منعقد ہوجائیگی اور اس طرح کی گئی خریدوفروخت شرعاً جائز ہے۔

مسئلہ مذکورہ میں اس بات کوذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ یہاں دوباتیں الگ الگ ہیں:

(۱)ایک یہ کہ جانور کووزن کرکے بیچنا اور خریدنا۔

(۲)دوسری بات یہ کہ جانور کوموزوں قرار دینا اور اس پرموزوانی اشیاء کے فقہی احکامات جاری کرنا، جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ جانور کووزن کرکے بیچنا اور خریدنا، یہ توبلاشبہ جائز ہے اس لیے کہ عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں؛ لیکن دوسری بات کہ جانور کوموزون قرار دینا اور اس پرموزونی اشیاء پرجاری ہونے والے تمام احکام فقہیہ جاری کرنا تویہ دووجہ سے درست نہیں ہے:

(۱)پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں جانوروں کا عددی ہونا معلوم ہے اور جن کی حیثیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں منصوص یامعلوم ہو ان کی وہ حیثیت تبدیل نہیں ہوا کرتی ہے۔

(۲)دوسری وجہ یہ ہے کہ جانور کودیگر اشیاء کی طرح حسب منشا کم یازیادہ کرکے وزن کرنا ناممکن ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح دیگراشیاءِ موزونہ کی جتنی مقدار مطلو ب ہوتی ہے، اتنی مقدار کوبلاتکلف وزن کرکے الگ کیا جاسکتا ہے، مثلاً چینی بیس کلو پندرہ گرام کی ضرورت ہے توبلاتکلف چینی کی یہ مقدار وزن کے ذریعہ الگ کی جاسکتی ہے، بخلاف جانور کے کہ اس میں یہ بات ممکن ہی نہیں، مثلاً اگرکوئی یہ کہے کہ بیس کلو پندرہ گرام کا بکرا چاہیے، کچھ کم یازیادہ نہ ہو توبظاہر یہ محال ہے؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ جانور کوموزونی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اگر بالفرض جانور کو سارے جہاں میں وزن کر کے بیع کرنے کا عرف قائم ہو جائے تو بھی جانور کو بنیادی طور پر موزونی قرار نہیں دیاجاسکتا،کیونکہ اس میں موزونی اشیاوالی صفات ہی نہیں پائی جاتیں ۔

مذکورہ تفصیل کے بعد جانور کی بیع وزنا کے جائز ہونے کا حاصل یہ ہے کہ فی کلو کے حساب سے جانور کی قیمت کا ایک معیار مقرر کر لیا گیا ہے جس کی بنا پر جانور کو وزن کرکے اس کے وزن کے اعتبار سے قیمت کا اندازہ لگا کر مناسب قیمت متعین کر لی جاتی ہےاور اس صورت میں وزن کو صرف آلہ بنا کرقیمت متعین کرنے میں آسانی پیدا کی گئی ہے لہذا عرفا تو اس بیع کو وزنا کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقتاً اس کا بیع وزنا ہونا محل تامل ہے۔البتہ یہ بیع بہرحال جائز ہے جبکہ جانور بھی متعین ہوجائے اور قیمت بھی متعین ہو۔ 

(حاشیہ فتاویٰ عثمانی:۳/۹۹)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

✍بقلم :بنت سعید الرحمن

قمری تاریخ:٤ذى الحجه١٤٣٩

عیسوی تاریخ:١٦اگست٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

➖➖➖➖➖➖➖➖

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

📩فیس بک:👇

https://m.facebook.com/suffah1/

====================

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇

https://twitter.com/SUFFAHPK

===================

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

===================

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں