خاتون کا یوٹیوب پر ویڈیوز بنانا

فتویٰ نمبر:834

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

السلام علیکم

اگر کوئی خاتون معاشی تنگی کی بناء پر یوٹیوب پر ویڈیو بنائے تو اسکی کس حد تک اجازت ہے؟؟

مطلب کهانا پکانے کی

مہندی لگانے کی

یا اگر کوئی عالمہ ہے تو تفسیر،فقہ کی؟

یعنی آواز کا اور ہاتهہ کا پردہ کس حد تک ہے؟

الجواب حامدۃو مصلية

عورت کی آواز کے بارےمیں اگرچہ فقہاءِکرامؒ کا اختلاف ہے،لیکن صحیح یہ ہے کہ عورت کی آواز اپنی اصل کے اعتبار سے سترمیں داخل نہیں ،اصل مقصد فتنہ کے دروازوں کو بند کرنا ہے،جہاں غیر محرم تک آوازپہنچنے اورپہنچانے میں فتنہ کا اندیشہ ہو ،وہاں اس سے احتیاط کرنا واجب ہے، جیسے کسی غیر محرم کو نعت یا حمد سنانا یا ایسے گفتگوں کرنا جو سننے والے کے دل میں میلان کاباعث بنے، اس اصول کے تحت مسئولہ صورت میں اگر آپ آوازبتکلف اس طرح نرم نہیں کرتیں کہ جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو یہ عمل فی نفسہ جائزہے، اسی طرح عورت کا ہاتھ بھی ستر میں شامل نہیں، لیکن مہندی لگنے کے سبب اس کی کشش بڑھ جاتی ہے اور فتنہ کا خدشہ ہوتا ہے تو اس بات کے پیش نظر اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

“(قوله تخافت) لأن صوتها عورة كما في الكافي والتبيين-“

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين-رد المحتار:2/ 179)

“(ولا تلبي جهرا) بل تسمع نفسها دفعا للفتنة؛ وما قيل إن صوتها عورة ضعيف”

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين-رد المحتار: 2/ 528)

“(قوله دفعا للفتنة) أي فتنة الرجال بسماع صوتها (قوله وما قيل) رد على العيني”

(حاشية ابن عابدين-رد المحتار:2/ 528)

“(وللحرة) ولو خنثى (جميع بدنها) حتى شعرها النازل في الأصح (خلا الوجه والكفين) فظهر الكف عورة المذهب (والقدمين) على المعتمد، وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح”

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين-رد المحتار: 1/ 405)

“(قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده.”

(حاشية ابن عابدين-رد المحتار:1/ 406)

ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال – عليه الصلاة والسلام – “التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء” فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها – عليه الصلاة والسلام – من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة”

مزید راہنمائی کے لیے دارالعلوم کراچی سے رجوع کریں.

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

✍بقلم : بنت یعقوب

قمری تاریخ : ۲۷ ذی القعدہ ۱۴۳۹

عیسوی تاریخ: ۹ اگست ۲۰۱۸

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم صاحب

➖➖➖➖➖➖➖➖

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.

📩فیس بک:👇

https://m.facebook.com/suffah1/

====================

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇

https://twitter.com/SUFFAHPK

===================

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

===================

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g

اپنا تبصرہ بھیجیں