کیا قیامت کے دن بغیر حساب کے۷۰ ہزار لوگ بے حساب کتاب جنت میں جائیں گے کیا یہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے؟

سوال: کیا قیامت کے دن بغیر حساب کے۷۰ ہزار لوگ بے حساب کتاب جنت میں جائیں گے کیا یہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے؟

جواب :جی بالکل یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 70ہزار لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔

چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو:

عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ فَقَالَ أَيُّكُمْ رَأَى الْكَوْكَبَ الَّذِي انْقَضَّ الْبَارِحَةَ ؟ قُلْتُ أَنَا ثُمَّ قُلْتُ أَمَا إِنِّي لَمْ أَكُنْ فِي صَلاَةٍ وَ لَكِنِّي لُدِغْتُ قَالَ فَمَاذَا صَنَعْتَ ؟ قُلْتُ اسْتَرْقَيْتُ قَالَ فَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ ؟ قُلْتُ حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ الشَّعْبِيُّ فَقَالَ وَ مَا حَدَّثَكُمُ الشَّعْبِيُّ ؟ قُلْتُ حَدَّثَنَا عَنْ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لاَ رُقْيَةَ إِلاَّ مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ فَقَالَ قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ وَ لَكِنْ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ وَ مَعَهُ الرُّهَيْطُ وَالنَّبِيَّ وَ مَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلاَنِ وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي فَقِيلَ لِي هَذَا مُوسَى صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَوْمُهُ وَ لَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ فَقِيلَ لِي انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ الآخَرِ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ فَقِيلَ لِي هَذِهِ أُمَّتُكَ وَ مَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَ لاَ عَذَابٍ ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَ لاَ عَذَابٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ بَعْضُهُمْ فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الإِسْلاَمِ وَ لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ وَ ذَكَرُوا أَشْيَائَ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَا الَّذِي تَخُوضُونَ فِيهِ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ هُمُ الَّذِينَ لاَ يَرْقُونَ وَ لاَ يَسْتَرْقُونَ وَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ أَنْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَة(صحیح مسلم :حدیث نمبر:2134 ج1 )

ترجمہ:سیدنا حصین بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ،انھوں نے کہا کہ تم میں سے کس نے اس ستارہ کو دیکھا جو کل رات کو ٹوٹا تھا؟ میں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میں کچھ نماز میں مشغول نہ تھا (اس سے یہ غرض ہے کہ کوئی مجھے عابد، شب بیدار نہ خیال کرے) بلکہ مجھے بچھو نے ڈنگ مارا تھا (تو میں سو نہ سکا اور تارا ٹوٹتے ہوئے دیکھا) سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے دم کروایا۔ انھوں نے کہا کہ تو نے دم کیوں کرایا؟ میں نے کہا کہ اس حدیث کی وجہ سے جو شعبی نے ہم سے بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ شعبی نے کونسی حدیث بیان کی؟ میں نے کہا کہ انھوں نے ہم سے سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ دم فائدہ نہیں دیتا مگر نظر کے لیے یا ڈنگ کے لیے (یعنی بد نظر کے اثر کو دور کرنے کے لیے یا بچھو اور سانپ وغیرہ کے کاٹے کے لیے مفید ہے) سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس نے سنا اور اس پر عمل کیا تو اچھا کیا لیکن ہم سے تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :”میرے سامنے پیغمبروں کی امتیں لائی گئیں۔ کوئی پیغمبرایسا تھا کہ اس کی امت کے لوگ دس سے بھی کم تھے اور کسی پیغمبر کے ساتھ ایک یا دو ہی آدمی تھے اور بعض کے ساتھ ایک بھی نہ تھا۔ اتنے میں ایک بڑی امت آئی۔ میں سمجھا کہ یہ میری امت ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت ہے، تم آسمان کے کنارے کو دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ اب دوسرے کنارے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور ان لوگوں میں ستر ہزار آدمی ایسے ہیں کہ جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے تو لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں گفتگو کی جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ بعضوں نے کہا کہ شاید وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے۔ بعض نے کہا نہیں شاید وہ لوگ ہیں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کیا۔ بعض نے کچھ اور کہا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا:” تم لوگ کس چیز میں بحث کر رہے ہو؟” انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ بدشگون لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔” یہ سن کرعکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تو انہی لوگوں میں سے ہے۔” پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بھی دعا کیجیے کہ اللہ مجھے بھی انہی لوگوں میں کرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” عکاشہ رضی اللہ عنہ تجھ سے پہلے یہ کام کر چکا۔ ”

==================

حوالہ جات:

1…عن سهل بن سعد، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:” ليدخلن الجنة من امتي سبعون الفا او سبع مائة الف شك في احدهما متماسكين آخذ بعضهم ببعض، حتى يدخل اولهم وآخرهم الجنة، ووجوههم على ضوء القمر ليلة البدر”.(صحیح بخاری كِتَاب الرِّقَاقِ۔ حدیث نمبر: 6543ج 1)

ترجمہ :سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جنت میں میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ (راوی کو ان میں سے کسی ایک تعداد میں شک تھا) آدمی اس طرح داخل ہوں گے کہ بعض بعض کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور اس طرح ان میں کے اگلے پچھلے سب جنت میں داخل ہو جائیں گے اور ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔

2…قال ابا هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:” يدخل الجنة من امتي زمرة هي سبعون الفا تضيء وجوههم إضاءة القمر”، فقام عكاشة بن محصن الاسدي: يرفع نمرة عليه، قال: ادع الله لي يا رسول الله ان يجعلني منهم، فقال: اللهم اجعله منهم، ثم قام رجل من الانصار، فقال: يا رسول الله ادع الله ان يجعلني منهم، فقال رسول الله: سبقك عكاشة”.

(صحیح بخاری حدیث نمبر:5811 ج1)

ترجمہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے جنت میں ستر ہزار کی ایک جماعت داخل ہو گی ان کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔ عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ اپنی دھاری دار چادر سنبھالتے ہوئے اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے بھی دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے انہیں میں سے بنا دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! عکاشہ کو بھی انہیں میں سے بنا دے۔ اس کے بعد قبیلہ انصار کے ایک صحابی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے عکاشہ دعا کرا چکا۔“

واللہ اعلم بالصواب

29-12-2021

اپنا تبصرہ بھیجیں