مگر لگتی ہے اس میں محنت زیادہ

مفتی انس عبدالرحیم

ہر مخلوق شعور رکھتی ہے:

یہ بات ہمیں آئے یا نہ آئے ۔ ہماری عقل اسے تسلیم کرے یا نہ کرے، پر حقیقت یہ ہی ہے کہ کائناتِ رنگ و بو کی ہر تخلیق اپنے اندر ایک خاص قسم کا ادراک اور شعور رکھتی ہے۔

٭ جہان کی ہر چیز رب ذوالجلال کی تعریف و توصیف اور اس کی مدح سرائی میں مصروف عمل ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۴۴)

٭ ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے یہ ’’امانت‘‘ آسمانوں اور زمین کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کا بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کردیا۔ وہ اس کا بوجھ اٹھانے سے ڈر گئے۔‘‘ (احزاب: ۷۲)

چنانچہ موجودہ سائنس بھی یہ بات تسلیم کر چکی ہے کہ جمادات اور پتھروں میں بھی ایک خاص قسم کی حس پائی جاتی ہے۔

انسان اور دیگر تخلیقات میں فرق:

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعور انسان بھی رکھتا ہے اور دیگر مخلوقات عالم بھی۔ تو انسان اور کائنات کی دیگر تخلیقات میں کیا فرق ہے؟ آخر وہ کیا اسباب و عوامل ہیں جن کے تحت مخلوقات کی سرداری کا شرف انسان کو حاصل ہوا اور خلافت ارضی کا تاج اس کے ماتھے پر سجایا گیا۔

باہمی فرق کے تین عوامل:

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر انسان کو یہ عالمگیر فضیلت حاصل ہے۔

۱… کائنات کی دیگر مخلوقات شعور رکھتی ہیں، عقل نہیں جبکہ انسان کو عقل جیسی عظیم المرتبت نعمت سے نوازا گیا ہے۔

٭ ’’جب اﷲ رب العزت نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا:

’’میں نے اپنی تخلیقات میں تجھ سے زیادہ معزز کوئی تخلیق پیدا نہیں ی۔ تیرے ہی سبب میں لوں گا اور تیرے ہی باعث میں عطا کروں گا۔‘‘

(اخرجہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط و أبو نعیم باسنادین ضعیفین ورواہ عبداﷲ بن الامام احمد فی زوائد الزھد عن الحسن مرفوعاً بسند جید، کما ذکرہ بعض المتاخرین۔ (الموضوعات الکبری: ص ۳۱۷ حدیث نمبر ۱۲۲۰)

۲۔ … کائنات میں بسنے والی مخلوقات شعور اور احساس تو رکھتی ہیں لیکن علم کی دولت سے محروم ہیں ۔ جبکہ انسان کو قدرت نے علم جیسے انمول خزانے سے مالا مال کیا ہے۔

یاد رکھیے! علم اور عقل یہ دو خوبیاں فرشتوں کو بھی عطا کی گئیں ہیں، لیکن ان کا جو وافر حصہ انسان کو دیا گیا ہے، فرشتوں کو کبھی عطا نہیں کیا گیا۔ انسان علم و عقل کی کوئی انتہا نہیں۔ جبکہ فرشتوں کے علم و عقل کی ایک مخصوص حد ہے جس میں مزید ترقی ان کی دسترس اور قدرت و اختیار سے باہر ہے۔ انسانوں کے جد امجد سیدنا آدم علیہ السلام کو سلامی دینے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم فرشتوں کو اسی لیے دیا گیا کہ سیدنا آدم علیہ السلام علم و عقل میں فرشتوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ فرشتے جن سوالات کا جواب نہ دے سکے تھے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے وسیع علم اور عظیم عقلی شعور کی بنیاد پر ان کا جواب دے کر ملائکہ کو لاجواب کر چکے تھے۔ مردود عزازیل کو بھی بارگاہ خداوندی سے اسی لیے دھتکار دیا گیا کہ اس نے حکم خداوندی کی نافرمانی اور انسان اول کے علم و فضل کی توہین وتذلیل کی تھی۔

٭ ’’اور آدم کو اﷲ تعالیٰ نے سارے نام سکھلا دیے (یعنی کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام، ان کی خاصیتیں اور انسانوں کو پیش آنے والے مختلف کیفیات، مثلاً : بھوک، پیاس، صحت، بیماری، نشہ، حسد ، احساسات وغیرہ کا علم دے دیا، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے کہا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام تو بتلائو! فرشتے بول اٹھے: آپ ہی کی ذات پاک ہے۔ جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے… اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: آدم! تم ان کو ان چیزوں کا نام بتادو! چنانچہ آدم نے ان کے نام بتا دیے … اور وہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو سجدہ کرو! چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ روایہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہوگیا۔‘‘ (البقرۃ : ۳۱۔۳۴)

۳… کائنات کی ہر مخلوق اﷲ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت میں مصروف ہے۔ لیکن اس کی بندگی اور اطاعت سے ان کو قرب خداوندی کا ایک محدود مقام ہی حاصل ہوتا ہے جس میں مزید ترقی ان کے لیے ممکن نہیں۔ خود ملائقہ اور جنات بھی قرب خداوندی کا ایک محدود اور معین مقام رکھتے ہیں جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔

٭ ’’وما منا الا لہ مقام معلوم‘‘

اور (جنات و ملائکہ نے کہا کہ ) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین درجہ ہے۔‘‘ (الصفّٰت: ۱۶۴)

٭ ’’حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا : اے محمد! میرے اور پروردگار کے درمیان نور کے ستر ہزار پردے حائل ہیں۔ ان پردوں میں سے کسی کے قریب بھی میں پہنچ جاؤں تو جل جاؤں ۔‘‘

(مظہری بحوالہ مصابیح النسۃ، الصفافات: ۱۶۴)

٭ ’’اﷲ رب االعزت نے جب سے حضرت اسرافیل علیہ السلام کو پیدا فرمایا ہے اس وقت سے وہ مسلسل اپنے قدموں پر کھڑے ہیں۔ نظر بھی اوپر نہیں اٹھاتے۔ ان کے اور ان کے رب کے درمیان ستر نوری پردے حائل ہیں۔ اگر ایک کے بھی قریب ہوجائیں تو جل جائیں۔‘‘

(مظہری بحوالہ ترمذی، الصافات: ۱۶۴)

جبکہ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جو قرب خداوندی کے مقامات میں مسلسل ترقی کر سکتا ہے۔ اس کی ایک دلیل واقعۂ معراج ہے۔ جس میں حضور ختم المعصومین ﷺ کو عرشِ بریں سے بھی آگے ان مقامات کی سیر کرائی گئی جہاں اس سے پہلے کسی مقرب سے مقرب فرشتے کو پل بھر کے لیے بھی رسائی نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ خداوند عالم کی براہ راست اور بلا حجاب زیارت کا شرف بھی ’’انسان کامل ﷺ‘‘ ہی کو عطا کیا گیا جو ایک ایسا امتیازی وصف ہے کہ اس سے پہلے کسی جن و مَلک کے حصہ میں نہیں آیا۔ جنات میں نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری نہ ہونا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اس میں ترقی پانے کے وہ کمالات موجود نہیں جو انسان میں قدرت نے ودیعت کردیے ہیں۔

تینوں عوامل میں علم کا مقام:

خلاصہ یہ کہ عقل، فہم و فراست اور علم و معرفت یہ وہ اسباب و عوامل ہیں جو انسان کو دوسری مخلوقات پر برتری دلانے کے باعث ہیں۔ ذرا غور کیا جائے تو ان تینوں سے بھی ’’علم‘‘ وہ مرکزی نکتہ ہے جو دیگر کمالات اور خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ علم ہی ترقی کا زینہ ہے۔ علم ہی ہے جو جہالت کے اندھیروں میں روشنی کی شمع ہے۔ علم ہی ہے جو قوموں میں اخلاق اور تہذیب کو جنم دیتا ہے اور علم ہی ہے جو انسان کو اس راز تک رسائی دے سکتا ہے جس کی اسے زندگی بھر سے تلاش ہے۔ یعنی اپنی تخلیق کا راز اور دنیا کی ناپائیدار، فانی اور بے ثبات زندگی کے پس پردہ حقیقی مضمرات…

٭ ’’دو قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں حسد کرنا جائز ہے:

۱۔ ایک تو وہ جسے خدا نے مال دیا اور پھر اسے راہ خدا میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ دوسرا جسے خدا نے علم دیا چنانچہ وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔‘‘ (مظاہر حق شرح مشکوٰۃ : ۲۲۸)

۲۔ ’’ جو علم کے راستوں پر چلتا ہے، اﷲ رب العزت اس کے لیے جنت کے راستے آسان کردیتے ہیں‘‘ …

۳۔ ’’علم اور حکمت و دانائی کی بات دانش مند آدمی کی گمشدہ پونجی ہے لہٰذا وہ جہاں اسے پائے اس کا حق دار ہے۔‘‘

(مشکوۃ شریف)

۴۔ ’’ علم کی تلاش میں نکلنا گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘ (مشکوۃ شریف)

۵۔ ’’میں تو خود معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘

(مشکوۃ شریف)

۶۔ ’’خدا کے بندوں میں علماء ہی خدا سے ڈرتے ہیں۔‘‘

(سورہ فاطر)

۷۔ ’’عبادت گزار پر عالم کو ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی مجھے تمہارے میں سے ادنیٰ آدمی پر ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

۸۔ ’’اہل علم، انبیائے کرام کے وارث ہیں۔‘‘

(مظاہر حق شرح مشکوٰۃ : ۱/۲۳۵)

کون سا علم باعث شرافت ہے؟

ان فرامینِ مقدّسہ کو نظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جو علم انسان کے لیے باعث شرافت ہے یہ وہ علم ہے:

٭ جو انسان کو اس کا مقصد تخلیق یاد دلاتا رہے۔

٭ جو انسان کا رشتہ خدا سے جوڑے رکھے جو انسان کو اپنے خالق سے آشنا کردے۔

٭ جو انسان کو اپنے خالق کا مخلص اور جانثار بند بنادے ۔

٭ جو انسان کو خداداد عقل و دانش کا اسیر بننے کی بجائے احکام ربانی کا غلام بنا دے۔

٭ جو انسان کو انسانیت دوست انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا فن سکھا دے۔

٭ جو انسان کو اپنے فیصلوں میں علومِ نبوت کا پابند بنادے۔

٭ جو انسان کو علوم نبوت کا علمبردار بنادے۔

دنیوی علوم و فنون کی حیثیت:

رہے دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے والے علوم و فنون! تو چونکہ ان کے بغیر کائنات ارضی میں حکومتی نظم و نسق قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ وہ عقل حکمت اور دانائی پر بھی مشتمل ہیں اس لیے مقصد حیات بنائے بغیر صرف ’’وسیلہ اور ضرورت کی حد تک ان کی تحصیل نہ صرف جائز بلکہ قابلِ مدح ہے۔ اور قابل مدح ہی نہیں بلکہ انسان ان کی تحصیل پر مامور بھی ہے۔

٭ جو علوم و فنون دنیوی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ان کا حصول مسلمان معاشرے کے لیے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے: طب، حساب… انجینئرنگ، صنعت و حرفت، زراعت و کاشتکاری، کپڑے بنانے کی صنعت، سیاست اور فاسد خون نکالنے کا پیشہ، ان سب پیشوں اور فنون کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔‘‘

(ردالمحتار علی الدرالمختار: ۱/۱۰۸ مقدمہ)

آخری بات!

ایک نیک اور منصف مزاج بادشاہ اپنی رعایا میں سے اسی فرد کو اپنا مقرب اور خاص انحاصر مشہد مشہد بناتا ہے جو خاص کمالات اور مہارتیں رکھتا ہے۔ وزیر سمجھ دار ہو تو اس امر کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ میرا یہ مقام و منصب میری کن صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہے؟ لہٰذا وہ ان مہارتوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کی کوشش کرتا اور اپنی حیثیت بحال رکھنے کے لیے ہر وقت بادشاہ کی خدمت اور اس کی اطاعت شعاری کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ بصورت دیگر بادشاہ کی نظروں میں وہ اپنا مقام کھو دیتا ہے۔ اسی طرح چند خاص خوبیوں کی وجہ سے ہی اﷲ رب العزت نے انسان کو مخلوقات میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ اب انسان صرف اسی بات پر اکتفا کرکے بے کار بیٹھ جائے کہ وہ اپنے رب کی برتر مخلوق ہے اور اسی گھمنڈ میں وہ اپنی ان خوبیوں اور مہارتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تو یہ انتہائی حماقت، نادانی، ناشکری اور بے قدری کی بات ہوگی۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ عقل و دانش اور علم و معرفت کے حصول میں اپنی صلاحیتیں وقف کردے۔ اسے چاہیے کہ وہ عقل و دانش کا رشتہ علم و معرفت سے نہ توڑے، بلکہ دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلے، انسان اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک رکھے کہ خالق کائنات کے نزدیک اس کا اعزاز و اکرام اور فضل و شرف انہیں باتوں سے مشروط ہے۔ بصورت دیگر وہ اپنے ان تمام اعزازات سے محروم اور کائنات میں اپنے حقیقی مقام و منصب سے معزول ہے!!!

فرشتوں سے بہتر ہے انسان تنہا

مگر لگتی ہے اس میں محنت زیادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں