میگی،نوڈلز اور پاستا وغیرہ کی حلت و حرمت کا حکم

فتویٰ نمبر:1075

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! کیا نوڈلز،میکرونیز ،پاستا وغیرہ حرام ہے؟کسی نے بتایا ہے کہ اس کے بنانے کہ دوران میں کسی حرام جانور کی کوئی چیز ڈالی جاتی ہے۔

والسلام

الجواب حامدۃو مصلية

جواب سے پہلے تہمید کے طور پر چند باتوں کا جاننا ضروری ہے:

کھانے پینے یا استعمال کی جو چیزیں اس وقت بن رہی ہیں،اس کا مندرجہ ذیل چار اقسام میں سے کسی ایک سے تعلق ہوتا ہے:

حیوانات،نباتات ،معدنیات، مصنوعی اجزاء. 

حیوانات کے علاوہ آخری تینوں یا ان کے مرکب سے بنی ہوئی مصنوعات میں اصل” اباحت”ہے۔ جب تک ان میں کوئی مسکر یا مضر صحت نہ ہو یا جب تک ان میں کسی حرام چیز کی آمیزش نہ ہو ان کا استعمال اور کھانا جائز ہے۔

جبکہ حیوانات سے بننے والی مصنوعات میں تحقیق کی جائے گی ،جس میں بنیادی طور پر دو چیزوں کو دیکھا جائے گا:

1۔اس جانور کا حلال ہونا

2۔اس جانور کا شرعی طریقے سے ذبح ہونا یعنی مردار نہ ہونا۔

اگر مذکورہ بالا دو شرائط پائی جاتی ہیں تو وہ چیز حلال ہے۔ ان میں سے ایک بھی کم ہوئی تو وہ حرام ہے۔

ان چاروں کے علاوہ ایک پانچویں قسم ہے جس کو “مرکبات “کہا جاتا ہے یعنی اوپر بیان کی گئی چار اقسام میں سے بعض کے یا سب کے مجموعے سے بننے والی چیزیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ پہلی تین یا ان میں سے بعض کا مرکب حلال ہے جب تک عدم جواز کی کوئی اور وجہ نہ ہو۔ جبکہ وہ مرکب جس میں حیوانات کے جزو کی آمیزش ہو اس میں احتیاط کرنے کا حکم ہے،جب تک تحقیق سے اس جانور کی حلت یا حرمت واضح نہ ہو جائے۔

پیکٹ کی اشیاء! 

یہ اشیا یا تو غیر مسلم ممالک میں تیار ہوتی ہوگی یا مسلم ممالک میں۔

غیر مسلم ممالک سے آنے والی اشیاء کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے جن کو ہم یہاں نکات میں بیان کریں گے:

(1) غیر مسلم ممالک سے آنے والی وہ اشیاء جو وہیں پر بنتی ہیں اور جو پہلی تین مباحات یا ان کے مرکب سے بنی ہو، ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

(2) غیر مسلم ممالک سے آنے والی وہ اشیاء جو حیوانات سے بنتی ہیں یا حیوانات کا کوئی جزو دوسرے مباحات میں شامل کردیا جاتا ہے، ان کی تحقیق کی جائے گی اور تحقیق کے بعداس پر حلت و حرم کا حکم لگایا جا سکتاہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک سے آنے والی مصنوعات میں حرمت چار یا ان میں سے کسی ایک کی بنا پر آتی ہے:

(الف) غیر مسلم ممالک میں خنزیر کا مسئلہ آتاہے کہ وہاں خنزیر کے اجزا، اس کا گوشت وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔

(ب) ان کے ذبیحے کا مسئلہ ہے کہ وہ حلال طریقے سے ذبح نہیں کرتے تو جانور مرداد ہو جاتا ہے۔

(ج‌) تیسرا شراب سے بننے کا مسئلہ آتا ہے، یعنی جو چیز چار قسم کی شراب: خشک اور تر کھجور،انگور اور کشمش کے شراب سے بنی ہو۔جس کی حرمت منصوص ہے۔ یہ اگر کسی چیز میں پڑ جائے تو وہ ناپاک اور حرام ہے. ان چار شرابوں کے علاوہ شراب ڈالی گئی ہو تو وہ چیز ناپاک تو نہیں لیکن نشہ آور ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔

(ج) چوتھا مسئلہ:کچھ وہ چیزیں ہوتی ہیں جو حشرات الارض سے بنتی ہیں۔

ان سب کے کوڈز مصنوعات پر لکھے ہوتے ہیں ان سے پتا چل سکتا ہے کہ کیا چیزیں ملائی گئی ہیں؟ 

غیر مسلم ممالک کی مصنوعات ان چار یا ان میں سے کسی ایک وجہ کی بنا پر مشکوک ہوجاتی ہے،اگر تحقیق سے معلوم ہو اور ان تینوں وجوہات میں سے کوئی وجہ پائی گئی تو وہ حرام ہے۔اگر تحقیق نہ ہو توان اشیاء کے استعمال سے پرہیز کیا جائے گا۔کیونکہ جب تک قطعی ثبوت نہ ہو اس وقت تک اس پر حرمت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا،لیکن اس کے استعمال کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

تاہم اگر تحقیق سے معلوم اور یقین ہو جائے کہ اس چیز میں ان تینوں میں سے کوئی وجہ پائی جا رہی ہے لیکن تبدیلی ماہیت ہو گئی ہے تو پھر اس کےاباحت کا حکم لگے گا۔

(3) غیر مسلم ممالک سے آنے والی وہ اشیاء جس کی کسی مستند مسلم ادارے نے حلت کی تصدیق کی ہو ،حلال سرٹیفائڈ ہوتو ان کا استعمال جائز ہے۔

(4) (الف) وہ اشیاء جو مسلم ممالک میں بنتی ہیں اور وہی سے غیر مسلم ممالک میں پہنچتی ہیں ،پھر وہاں سے ہمارے پاس آتی ہیں ۔ایسی اشیاء کا استعمال بھی جائز ہے۔(ب) غیر مسلم ممالک سے آنے والی یا غیر مسلم ممالک سے بن کر مسلم ملک سے گزر کر آنے والی اشیا میں اس کے اجزا کو دیکھا جائے گا،اگر اس میں کوئی حرام یا ناجائز جزو شامل نہیں تو جائز ورنہ اس کے استعمال سے احتیاط کرنا چاہیے جب تک کہ اس پر تحقیق نہ ہو جائےاور اس کی حلت وحرمت واضح نہ ہو جائے۔

اصل جواب:

پاکستان میں آنے والی نوڈلز،پاستا اور میکرونز وغیرہ اکثر حلال سرٹفائد ہوتی ہیں۔ان پر حلال کا لوگو لگا ہوتا ہے۔لہذا ان کو حلال ہی سمجھا جائے گا. جب تک ان کی حرمت تحقیق سے ثابت نہ ہو جائے تب تک اس کو حرام نہیں کہا جا سکتا. 

(قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہ، اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا)(الانعام : ١٤٥)

( وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ) 

(النحل : ١١٦)

“الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على التحريم

عند الجمهور۔۔۔”

(القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة:القائدہ:16)

و اللہ سبحانہ اعلم

بقلم : بنت ممتاز عفی عنھا

قمری تاریخ:23 ربیع الاول،1440ھ

عیسوی تاریخ:1 دسمبر،2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں