منی ،عرفات اورمزدلفہ میں نمازقصرکریں یامکمل پڑھیں؟

منی ،عرفات اورمزدلفہ میں نمازقصرکریں یامکمل پڑھیں؟

“اس مسئلے میں اختلاف در حقیقت ایک اور اختلاف پر مبنی ہے، وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں منی اور مکہ مکرمہ دونوں الگ الگ دو مستقل مقامات ہیں یا منی اب مکہ مکرمہ کا محلہ بن گیا ہے ؟ اس سلسلہ میں معاصر علماء کرام کی آراء مختلف ہیں :

بعض حضرات علماء کرام کا کہنا یہ ہے کہ منی اور مکہ مکرمہ حسب سابق دونوں اب بھی دو الگ الگ مقامات ہیں، جبکہ دوسری طرف بعض علماء کرام کی رائے یہ ہے کہ چونکہ کسی مقام کا مستقل ہونا یا کسی مستقل مقام کے تابع ہونا عرف پر مبنی ہے، لہٰذا آج کے دور میں منی اتصال آبادی وغیرہ کی بناپر عرف میں مکہ مکرمہ کا ایک محلہ بن گیا ہےاور سعودی حکومت نے بھی منی کو مکہ مکرمہ میں شامل قرار دیدیا ہے ، اس لیے اب منی سفر و حضر کے معاملہ میں مکہ مکرمہ کے تابع ہے،مستقل مقام نہیں رہا۔اور دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی کے حضرات کا بھی یہی موقف ہے۔

لہذا ہماری رائے کے مطابق اگر مکہ مکرمہ اور منی دونوں مقامات پر حاجی کے قیام کی مجموعی مدت پندرہ دن یا اس سے زیادہ ہو تو وہ مقیم کہلائے گا، اور مکہ مکرمہ اور منی دونوں مقامات میں نماز پوری ادا کرے گا۔ اور اگر مکہ مکرمہ اور منی دونوں مقامات میں حاجی کے قیام کی مجموعی مدت پندرہ دن سے کم ہو تو اس صورت میں وہ مسافر کہلائے گا، اور چار رکعت والی صرف فرض نماز میں قصر کرے گا۔

تاہم اگر کسی حاجی کو دیگر علماء کرام کےموقف پر اعتماد ہو اور وہ اُن کی رائے کے مطابق عمل کرلے تو اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن فتنہ اور انتشار سے بچنا بہر حال لازم ہے۔” (ماخذه تبویب:۱۲۷۴/۱۵)

اپنا تبصرہ بھیجیں