مستحاضہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے گی۔

سوال: السلام علیکم باجی مستحاضہ ہر نماز کے لئے وضو اور غسل دونوں کرے یا صرف وضو کرے اور پیڈ تبدیل کرے۔

جواب: وعلیکم السلام ورحمة اللہ!

اگر حیض کے ایام ختم ہونے کے بعد غسل کرلیا تھا تو غسل کے اعادے کی ضرورت نہیں ،البتہ مستحاضہ کو ہر نماز کا وقت داخل ہونے پر نیا وضو کرنا ہوگا اور اس وضو کے ساتھ اگلی نماز کے وقت تک جتنے چاہیں فرائض و نوافل پڑھ سکتی ہے۔رہی بات پیڈ تبدیل کرنے کی تو اگر دوسرا پیڈ تبدیل کرنے کے بعد فوراً ناپاک ہو جاتا ہے یا بار بار تبدیل کرنے میں مشقت محسوس ہوتی ہے تو پھر پیڈ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں،لیکن اگر دوسرا پیڈ جلدی ناپاک نہیں ہوتا اور تبدیل کرنے میں مشقت بھی نہیں تو پھر پیڈ تبدیل کرنا ضروری ہے،اگر اُسی پیڈ میں نماز پڑھ لی اور ناپاکی کی مقدار ایک درہم سے زائد ہو تو نماز نہیں ہوگی۔

▪️هذه المسئلة مستنبطة من حديث المستحاضة عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: جاءت فاطمة بنت أبي حبيش رضی اللہ عنہا إلى النبي ﷺ فقالت: يا رسول اللہ ﷺ إني امرأة أستحاض، فلا أطهر، أفأدع الصلاة؟ قال: «لا، إنما ذلك عرق وليس بالحيضة، اجتنبي الصلاة أيام محيضك، ثم اغتسلي، وتوضئي لكل صلاة، وإن قطر الدم على الحصير» (سنن ابن ماجه – رقم 624 ج1/ 204)

▪️عن أسماء ابنة أبي بكر رضی اللہ عنہ أن امرأة سألت النبي ﷺ عن الثوب يصيبه الدم من الحيضة؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : حتيه، ثم اقرصيه بالماء، ثم رشيه، وصلي فيه.وفي الباب عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ ، وأم قيس بنت محصن رضی اللہ عنہ .

حديث أسماء في غسل الدم حديث حسن صحيح. وقد اختلف أهل العلم في الدم يكون على الثوب فيصلي فيه قبل أن يغسله:

فقال بعض أهل العلم من التابعين: إذا كان الدم مقدار الدرهم فلم يغسله وصلى فيه أعاد الصلاة.وقال بعضهم: إذا كان الدم أكثر من قدر الدرهم أعاد الصلاة، وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك.ولم يوجب بعض أهل العلم من التابعين وغيرهم عليه الإعادة وإن كان أكثر من قدر الدرهم، وبه يقول أحمد، وإسحاق.وقال الشافعي: يجب عليه الغسل وإن كان أقل من قدر الدرهم، وشدد في ذلك. (سنن الترمذي ت بشار رقم 138 ج1/ 201)

وعن إبراهيم، قال: «إذا كان الدم قدر الدرهم والبول وغيره، فأعد صلاتك، وإن كان أقل من قدر الدرهم، فامض على صلاتك» وقال محمد: يجزئه صلاته حتى يكون ذلك أكثر من قدر الدرهم الكبير المثقال فإذا كان كذلك لم تجزئه صلاته، وهو قول أبي حنيفة رضی اللہ عنہ .(الآثار لمحمد بن الحسن رقم 146 ج1/ 377)

▪️”والمستحاضة ومن به سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لایرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاة فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض والنوافل”. (الهدایة على صدر البنایة:ج؍۱،ص؍۴۷۹،باب الحیض)

▪️مریضٌ تحتہ ثیاب نجسة وکلما بسط شیئا تنجّس من ساعتہ یصلّی علی حالہ وکذا لو لم یتنجس الثانی لکن یلحقہ زیادة مشقّة بالتحویل کذا في فتاوی قاضي خان (ہندیہ: (الْبَابُ الرَّابِعَ عَشَرَ فِي صَلَاةِ الْمَرِيضِ، ١ /١٣٧)

واللہ اعلم بالصواب۔

اپنا تبصرہ بھیجیں