فتویٰ نمبر:4057
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
صدقے کے پیسے کسی کو دیتے ہوئے اس سے پوچھنا ضروری ہے؟ صدقہ میں اگر کوئی کہے کہ میں صدقہ نہیں لیتا تو اسے صدقہ نہ دیا جائے؟کیا صدقہ بھی مستحق کو دینا لازمی ہے؟ذرا تفصیل سے اس بارے میں بتادیں۔
والسلام
الجواب حامدا و مصليا
نفلی صدقے کا کوئی مخصوص مصرف نہیں بلکہ نفلی صدقہ ہر ایک کو دینا جائز ہے، چاہے مسلمان ہو یا کافر،مال دار ہو یا غریب۔ ان کو دیتے ہوئے یہ بتانا بھی ضروری نہیں ہے کہ یہ صدقے کے پیسے ہیں بلکہ ان کو ھدیہ یا کوئی بھی چیز دی تو یہ صدقہ ہی ہوا اب اس میں سامنے والے سے اجازت لینا یا ان کو بتانا کوئی ضروری نہیں ہے۔اپنے رشتہ دار کو صدقہ وغیرہ دینے میں دگنا ثواب ملتا ہے، ایک صلہ رحمی کا اور دوسرا صدقے کا۔اسی طرح آج کل دینی مدارس اور دینی مدارس کے طلباء صدقات کا بہترین مصرف ہیں، ان کو زکوة دینے میں بھی دگنا ثواب ہے، ایک صدقے کا اور دوسرا دین کے کاموں میں معاونت کا۔ یاد رہے مال دار پر نفلی صدقہ لگ سکتا ہے اور اس میں دینے والے کو ثواب بھی ملتا ہے لیکن مال دار کے لیے بہتر ہے کہ وہ صدقے کے مال سے بچے۔
◼”فاما الصدقة على وجه الصلة والتطوع، فلا باس به وكذلك يجوز النفل للغنى”
(التاتارخانية275/2)
◼”الأصل أن الصدقۃ تعطي للفقراء والمحتاجین وہذا ہو الأفضل کما صرح بہ الفقہاء وذلک لقولہ تعالیٰ: …… واتفقوا علی أنہا تحل للغني لأن صدقۃ التطوع کالہبۃ فتصح للغني والفقیر۔ قال السرخسي: ثم التصدق علی الغني یکون قربۃ لیستحق بہا الثواب … لکن یستحب للغني التنزہ عنہا”۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ :332/24)
(المبسوط للسرخسي، کتاب الہبۃ، باب الصدقۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت :92/12)۔
◼”قال ابو حنیفۃؒ: لا تتأدی الزکاۃ بدفعہا إلیٰ من لہ قرابۃ الأولاد أو الزوجیۃ وأما النافلۃ ففیہا أجران أجر القرابۃ وأجر الصدقۃ “۔
(العرف الشذی علی جامع الترمذی، النسخۃ الہندیۃ: 143/1)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:9جمادی الاخری1440ھ
عیسوی تاریخ:16فروری2019ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: