نقاب کا کیا حکم ہے؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

یہ سوال پردے کے بارے میں یعنی نقاب کے بارے میں ہے۔

کیایہ فرض ہے؟ خاص طور سے اس معاشرے میں! مجھے غلط مت سمجھئے گا۔ماشاء اللہ میں بہت عزت کرتی ہوں جو نقاب پہنتی ہیں میں اسے ایک بہت عظیم کام سمجھتی ہوں اور اس میں وضاحت چاہتی ہوں کیا یہ فرض ہے یا پہننے کا حکم ہے؟

دار عائشہ کے ادارے کے نزدیک الحمد للہ جہاں میں نے دس سال پڑھا ہے میرے سمجھ کے مطابق یہ فرض نہیں ہے۔

کیا یہ درست راۓ ہے کہ یہ فرض نہیں ہے اس کے بارے میں کئ فتاوی ہیں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

پردے کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح احکام آئے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چہرے کا پردہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور خاص طور سے اس فتنے کے زمانے میں تو چہرے کا پردہ واجب ہے۔

چنانچہ قرآن میں آیاہے:

‏‎يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.(الاحزاب،آیت 59)

اس آیت میں “یدنین” کے لغوی معنی قریب ہونا ، لٹکانا ،جھکنا سب شامل ہے۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے: وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ»۔ (سورہ الرحمن ایت54 ,55)

“یعنی جنت کے دونوں باغوں کے پھل جھک رہے یا لٹک رہے ہوں گے “

اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن میں “یدنین” کا معنی “سر سے نیچے کو لٹکانے” کا ہو گا، اس کو ‏‎لفظ ” جلباب“ سے ملایا جائے تو مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ ”جلباب“اس چادرکوکہا جاتاہے جوپورےبدن کوچھپالے تو مفہوم یہ ہوا کہ عورتیں جب گھر سے باہر نکلیں تو اپنے چہرے اور جسم پر چادر لٹکا کر نکلیں۔ اس کے بغیر نہ نکلیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ-(سورہ۔ احزاب 33)

ترجمہ :اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو –

اس آیت کریمہ میں دو لفظوں : تبرج اور الجاھلیة الاولیٰ کا ذکر غور طلب ہے۔

“تبرج” ظاہر اور نمایاں ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتاق ہے۔ لہٰذا عورت کا اصل مقام یہ یہ وہ گھر میں ہی رہے ۔ یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے حسن وجمال، چال ڈھال اور زیب و زینت کو لوگوں کے سامنے نمایاں کرتی پھرےاور جاہلیت جیسی بے پردگی اختیار کرے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں جو بے راہ روی پھیلی ہوئی ہے اور آئے دن خواتین کی عزت سے کھیلا جاتا ہے ،اس کی سب سے بڑی وجہ فحاشی،عریانی اور ہے پردگی ہے، نیز عورت کا حسن ظاہر ہی چہرے سے ہوتا ہے اور یہی فتنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے چہرہ کا پردہ بدرجہ اولی ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1-فأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباس فی ہذہ الآیة قال : أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینًا واحدة۔

2-وأخرج عبدالرزاق وأبو داوٴد وابن أبی حاتم عن أم سلمة قالت: لمّا نزلت ہٰذہ الآیة : ”یدنین علیہن من جلابیہن“ خرج نساء الأنصار کأن علی روٴوسہن الغربان من السکینة وعلیہن أکسیة سود یلبسونہا۔

۔ (فتح القدیر:352/4ط: دارابن کثیر)

3-قَال العلامة الجصاص: فیہ الدلالة علی أن النساء مأمورات بلزوم البیوت منہیات عن الخروج -وہذہ الأمور کلہامما أدّب اللّٰہ بہ نساء النبیﷺ صیانة لہن ونساء الموٴمنین مرادات بہا ۔ (أحکام القرآن للجصاص: 230/5 ، ط: داراحیاء التراث العربی)

4۔وقال العلامة ابن کثیر : ہٰذہ آداب أمراللّٰہ تعالیٰ بہا نساء النبیﷺ ونساء الأمة تبع لہن فی ذٰلک۔ (ابن کثیر: 408/6,ط: دارطیبة)

5-وفی أحکام القرآن للتھانوی: وہذہ الآیة تدل علی أن کیفیة الحجاب الشرعی ہو التستر بالبیوت والخدور بحیث لا ینکشف للرجال شیء من أبدانہن وزینتہن۔ (408/3,ط: ادارة القرآن کراچی)

6-قال ابو حیان : وقوله تعالى : { يُدْنِينَ عَلَيْهِن مِنْ جَلابِيبِهِنَّ } ، شامل لجميع أجسادهن ، أو المراد بقوله : (عليهن) أي على وجوههن ، لأن الذي كان يبدو منهن في الجاهلية هو الوجه, (البحر المحيط، 8/504، دار الفكر)

7-قال ابوبکر الرازي : في هذه الآية دلالة على ان المرأة الشابة مأمورة بستر وجهها عن الأجنبيين وإظهار الستر والعفاف عند الخروج

. (أحكام القرآن للجصاص، 3/486، العلمية)

فقط

واللہ اعلم بالصواب

26 ربیع الاول 1443ھ

2 نومبر 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں