پرانےقبرستان کومنہدم کرکےازسرنوتدفین شروع کرناجائزہےیانہیں

  سوال:کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ یوسف پورہ قبرستان میں تقریباً21سال سےبالغوں کی تدفین بند ہےاوراب صرف بچوں کی تدفین ہوتی ہےاسکے علاوہ وہاں بہت کم لوگ جاتےہیں ،قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ؟

 (۱)      بلڈوزکرکےپلاننگ کےساتھ ازسرِنوتدفین شروع کردی جائے؟

(۲)      ایک ساتھ بلڈوزنہ کیاجائےبلکہ ایک جانب سےیہ سلسلہ شروع کیاجائے؟

(۳)     جلسہ عام سےمنظوری حاصل کی جائے؟

(۴)    4 10سال کیلئےجوں کاتوں رکھاجائے؟

(۵)      مرحومین کےورثاءکواختیاردیاجائےکہ اگروہ قبرقائم رکھناچاہیں تو؟

الجواب حامدا   ومصلیا

            واضح رہےکہ دین ِاسلام ایک معتدل المزاج اورافراط وتفریط سےماوراءدینِ فطرت ہےدینِ متین کےہرحکم اورہرمسئلہ کوشریعت ِمقدّسہ کی طرف سےحدِّاعتدال میں رکھاگیا ہے،یہی اصول انسانی حیات مستعارمیں اس پرلاگوہوتاہےاوریہی نظریہ اس کےمرنےکے بعد اس سےمتعلقہ احکام میں کارفرماہوتاہے۔

قبرستان اوراس میں موجود قبورسےمتعلق جملہ احکام پراگرنگاہ ڈالی جائےتوشریعت ِ مقدّسہ میں ہراس امرکی ممانعت ہے جس سےانکی توہین ،تحقیر،بےاکرامی وبےاحترامی ہوتی ہو،اوراکرام واعزازمیں اس قدرآگےنکل جانابھی جائزنہیں کہ شریعت ِ مطہرہ کی متعین کردہ حدود ِاعتدال  اس سےپیچھے رہ جائیں ،مسلمان میت کی تجہیزوتکفین اوراسکوکندھادینےکے فضائل ،نمازِجنازہ وعمل ِتدفین میں شرکت کااجروثواب ،میت کوقبرمیں اتارےجانےسے قبل ساتھ آنےوالوں کوبیٹھنےکی ممانعت ،پیروں سےقبروں کوروندےکاحکم امتناعی ،بلاعذرِ شرعی بعدِتدفین قبرکھودنےکاعدم ِجوازاورقبرستان میں آنےکےبعداہل ِ قبورکوسلام کرنے

کی فضیلت وترغیب اوراس کےطریقہ کی تعلیم،نیزقبرکوبوسہ دینےکی کراہت ،قبرکی طرف منہ کرکےدعامانگنے،نمازپڑھنےکی حرمت ،قیمتی پتھریاقیمتی اشیاءکوقبرمیں استعمال کرنےکی ممانعت اورقبرکوپختہ کرنےکاعدمِ جواز،

یہ تمام احکام شریعت ِ مقدسہ کےاسی نظریہ واصول  کی غمازی کرتےہیں یہی اصول مسئول عنہاقبرستان “یوسف  پورہ”کی بابت متوجہ ہوگا،لہذااگرقبرستان کوفی الحال جگہ کی ضرورت نہیں ہےاورتدفین کیلئےمتبادل جگہ موجود ہےتوپھراس جگہ کو(یوسف پورہ کو) عملی تصرف میں لانےکی اجازت نہیں ہے،جب اس جدید قبرستان میں جہاں تدفین کاعمل شروع  ہوچکاہےجگہ پوری ہوجائےتوپھرکسی اورجگہ کوئی اورزمین تلاش کرنےکےبجائےاسی پرانےاورقدیم قبرستان میں تدریجاًتدفین کاعمل شروع کیاجائےاورحسبِ ضرورت قدیم سےقدیم قبرسےمرحلہ وارازسرِنوتدفین کردی جائے،ایک ساتھ  پورےقبرستان کوختم نہ کیاجائے۔(۱)

حاشية ابن عابدين – (2 / 233)

وَأَشَارَ بِإِفْرَادِ الضَّمِيرِ إلَى مَا تَقَدَّمَ مِنْ أَنَّهُ لَا يُدْفَنُ اثْنَانِ فِي قَبْرٍ إلَّا لِضَرُورَةٍ، وَهَذَا فِي الِابْتِدَاءِ، وَكَذَا بَعْدَهُ. قَالَ فِي الْفَتْحِ، وَلَا يُحْفَرُ قَبْرٌ لِدَفْنِ آخَرَ إلَّا إنْ بَلِيَ الْأَوَّلُ فَلَمْ يَبْقَ لَهُ عَظْمٌ إلَّا أَنْ لَا يُوجَدَ فَتُضَمُّ عِظَامُ الْأَوَّلِ وَيُجْعَلُ بَيْنَهُمَا حَاجِزٌ مِنْ تُرَابٍ. وَيُكْرَهُ الدَّفْنُ فِي الْفَسَاقِيِ اهـ وَهِيَ كَبَيْتٍ مَعْقُودٍ بِالْبِنَاءِ يَسَعُ جَمَاعَةًقِيَامًا لِمُخَالَفَتِهَا السُّنَّةَ إمْدَادٌ. وَالْكَرَاهَةُ فِيهَا مِنْ وُجُوهٍ: عَدَمِ اللَّحْدِ، وَدَفْنِ الْجَمَاعَةِ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بِلَا ضَرُورَةٍ، وَاخْتِلَاطِ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ بِلَا حَاجِزٍ، وَتَجْصِيصِهَا، وَالْبِنَاءِ عَلَيْهَا بَحْرٌ. قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَخُصُوصًا إنْ كَانَ فِيهَا مَيِّتٌ لَمْ يَبْلُ؛ وَمَا يَفْعَلُهُ جَهَلَةُ الْحَفَّارِينَ مِنْ نَبْشِ الْقُبُورِ الَّتِي لَمْ تَبْلُ أَرْبَابُهَا، وَإِدْخَالِ أَجَانِبَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ مِنْ الْمُنْكَرِ الظَّاهِرِ، وَلَيْسَ مِنْ الضَّرُورَةِ الْمُبِيحَةِ لِجَمْعِ مَيِّتَيْنِ فَأَكْثَرَ ابْتِدَاءً فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ قَصْدَ دَفْنِ الرَّجُلِ مَعَ قَرِيبِهِ أَوْ ضِيقِ الْمَحَلِّ فِي

 

تِلْكَ الْمَقْبَرَةِ مَعَ وُجُودِ غَيْرِهَا، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يُتَبَرَّكُ بِالدَّفْنِ فِيهَا فَضْلًا عَنْ كَوْنِ ذَلِكَ وَنَحْوِهِ مُبِيحًا لِلنَّبْشِ، وَإِدْخَالِ الْبَعْضِ عَلَى الْبَعْضِ قَبْلَ الْبِلَى مَعَ مَا فِيهِ مِنْ هَتْكِ حُرْمَةِ الْمَيِّتِ الْأَوَّلِ، وَتَفْرِيقِ أَجْزَائِهِ، فَالْحَذَرُ مِنْ ذَلِكَ اهـ: وَقَالَ الزَّيْلَعِيُّ: وَلَوْ بَلِيَ الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ اهـ. قَالَ فِي الْإِمْدَادِ: وَيُخَالِفُهُ مَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة إذَا صَارَ الْمَيِّتُ تُرَابًا فِي الْقَبْرِ يُكْرَهُ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ لِأَنَّ الْحُرْمَةَ بَاقِيَةٌ، وَإِنْ جَمَعُوا عِظَامَهُ فِي نَاحِيَةٍ ثُمَّ دُفِنَ غَيْرُهُ فِيهِ تَبَرُّكًا بِالْجِيرَانِ الصَّالِحِينَ، وَيُوجَدُ مَوْضِعٌ فَارِغٌ يُكْرَهُ ذَلِكَ. اهـ. قُلْت: لَكِنْ فِي هَذَا مَشَقَّةٌ عَظِيمَةٌ، فَالْأَوْلَى إنَاطَةُ الْجَوَازِ بِالْبِلَى إذْ لَا يُمْكِنُ أَنْ يُعَدَّ لِكُلِّ مَيِّتٍ قَبْرٌ لَا يُدْفَنُ فِيهِ غَيْرُهُ، وَإِنْ صَارَ الْأَوَّلُ تُرَابًا لَا سِيَّمَا فِي الْأَمْصَارِ الْكَبِيرَةِ الْجَامِعَةِ، وَإِلَّا لَزِمَ أَنْ تَعُمَّ الْقُبُورُ السَّهْلَ وَالْوَعْرَ، عَلَى أَنَّ الْمَنْعَ مِنْ الْحَفْرِ إلَى أَنْ يَبْقَى عَظْمٌ عَسِرٌ جِدًّا وَإِنْ أَمْكَنَ ذَلِكَ لِبَعْضِ النَّاسِ، لَكِنَّ الْكَلَامَ فِي جَعْلِهِ حُكْمًا عَامًّا لِكُلِّ أَحَدٍ فَتَأَمَّلْ.

            سوال میں مذکوریوسف پورہ قبرستان سےمتعلق تفصیل مع الحکم سطوربالامیں واضح ہوگئی ،سائل کےمندرجہ سوالات کےجوابات بھی اس سےمعلوم ہوگئےتاہم بغرض توضیح مزید نمبروارجوابات درج ذیل ہیں :

(۱)       جب تک ضرورت نہ ہوبلڈوز نہ کیاجائے۔

(۲)      جس وقت یہاں تدفین کی ضرورت پیش آئے اس وقت قدیم ترین جگہ سےحسب ِ ضرورت  تدریجاًقدیم قبورکوختم کرکےجدید قبریں بنائی جائیں ۔

(۳)     شرعی حکم کےخلاف کوئی حکم جلسہ عام سےاگرمنظورہوجائےتوجلسہ عام کی رعایت میں اس حکم کوتوڑنےکی اجازت شرعاًنہیں ہوگی لہذاجلسہ عام سےمنظوری لینےکی ضرورت نہیں ہے،اگرجلسہ عام میں حکم شرع کیخلاف کوئی قراداد منظورہوجائےتوشرعاًاس منظوری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

 (۴)    دس سال  کی قید نہیں بلکہ جب تک ضرورت نہیں ہےجب تک ایسےہی رہنےدیا جائے۔

(۵)      اسکی بھی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ امربھی قابل ِلحاظ ہےکہ  امت کاخیرالقرون سے یہ تعامل رہاہےکہ جب کوئی قبرستان بھرجاتاہےتواس میں تدریجاًعمل تدفین دوبارہ شروع کر دیاجاتاہے اسی طرح ایک تعامل یہ بھی ہےکہ وہ اہل ِ قبورجواپنی زندگی میں اپنےاعلی کردار علم ودانش ،صلاح وفلاح ،ورع وتقوٰی کی بنیاد پراہل  اللہ اورصلحاءِامت کی نظرمیں مقتدایان ِ امت  میں شمارہوتےہیں اوراپنی راہنمائی اوروراثت  ِ نبوت کےحامل ہونےکے سبب اپنی تعلیمات کی حیات رکھتےہیں انکی قبورکوجوں کاتوں ہی رہنےدیاجائےاورانکومنہدم کرنے سےگریزکیاجائےتاکہ زیارتِ قبور کرنےوالےاہل ِ اسلام کیلئےانکےاپنے مستقبل  میں اسوہ اورترغیب کاباعث رہے،اسکی عملی مثال زمانہ اسلام کےتمام قدیم  مقابرمیں ملتی ہے۔

 التخريج

(۱)الفتاوى الهندية – (1 / 167)

وَلَوْ بَلَى الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ.

 فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (3 / 430)

 وَلَا يُدْفَنُ اثْنَانِ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ إلَّا لِضَرُورَةٍ ، وَلَا يُحْفَرُ قَبْرٌ لِدَفْنِ آخَرَ إلَّا إنْ بَلِيَ الْأَوَّلُ فَلَمْ يَبْقَ لَهُ إلَّا عَظْمٌ إلَّا أَنْ لَا يُوجَدَ بُدٌّ فَيُضَمُّ عِظَامُ الْأَوَّلِ وَيُجْعَلُ بَيْنَهُمَا حَاجِزٌ مِنْ تُرَابٍ                                          

البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (2 / 210)

 وَلَوْ بَلِيَ الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ. اهـ.

اپنا تبصرہ بھیجیں