قرض سےنفع اٹھاناکیساہے

سوال:محترم مفتی سعید صاحب  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

  گزارش  عرض یہ ہےکہ مجھےایک کام کےسلسلےمیں آپ سےفتوٰی لیناہےبرائے مہربانی میری راہنمائی کریں میراایک دوست کپڑےکاکاروبارکرتاہےوہ مارکیٹ سےکپڑا ادھارمیں 20 روپے گزلیتاہےجبکہ وہی کپڑاکیش میں لیں تو17روپےگزپڑتاہےمیں اسے کاروبارکےسلسلےمیں ایک لاکھ روپےدیناچاہتاہوں تاکہ وہ کپڑاکیش میں خریدےگااوراس کےگزپر3روپےجوبچیں گےوہ مجھےپرافٹ  میں دیگا  آپ کامشورہ درکارہےلہذا آپ مجھے صحیح راستہ بتائیں ؟

الجواب حامدا ومصلیا
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ طریقہ سےسائل کااپنےدوست سےنفع اٹھاناجائزنہیں ہے بلکہ شرعاًسود کےزمرےمیں آنےکی وجہ سےحرام ہے  (۱)

درمختار(5/166)میں ہے:
وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى الموهونة بإذن الراهن

البتہ اگرسائل یہ طریقہ اختیارکرےکہ اپنےدوست کوایک لاکھ روپےکی مذکورہ رقم دیکراس کومارکیٹ سےنقد ادائیگی پراپنی طرف سےکپڑاخریدنےاورپھراپنی طرف سے اس پرقبضہ کرنےکاوکیل بنادے،جب سائل  کادوست سائل کےوکیل کی حیثیت سےسائل کی طرف سےاس پرقبضہ کرلےتوسائل ادھارادائیگی کےدام پراس کوفروخت کرکےاس کو اقساط میں وصول کرلےتوشرعاًًیہ صورت  جائزاورسود سےپاک ہے

التخريج

 (۱) فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (16 / 303)

عَنْ عُمَارَةَ الْهَمْدَانِيِّ قَالَ : سَمِعْت عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَهُوَ رِبًا }

مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 642)

أما المستفيد من المصارف فيقترض منها بالقرض الحسن الذى لا فائدة فيه ومال القرض هو مال بعض مؤسسى المصرف لأن الفقهاء اتفقوا على أن كل قرض جر نفعًا فهو ربا  أي اشترط فيه النفع وهو الربا أو الفائدة أو المنفعة كالسكنى في بيت الغريم المدين . ولا يجوز في أي تعامل للمصرف أن ينص على دفع فائدة منه أو إليه وليس له أخذ فائدة مقابل دفع مبلغ مؤجل حالًا لأن ذلك ربا حرام

اپنا تبصرہ بھیجیں