طلاق کے بعد بچی کی پرورش کا حکم

سوال:السلام علیکم!

جناب مفتی صاحب!عرض یہ ہے کہ شوہر نے اپنے بیوی کو کسی وجہ سے ایک طلاق رجعی دے دی ہے اور آئندہ بھی فریقین میں صلح کی نوبت نہیں ہے۔ دونوں کے ہاں ایک لڑکی بھی ہے، جس کی عمر 9 سال ہے، آئندہ کے لیے اس بچی کا شرعی حکم کیا ہے اور چند سوالات جو درج ذیل ہیں اس کے جواب شریعت کی رو سے عرض فرمادیں نوازش ہوگی۔

1۔ بچی اگر اپنی والدہ کے پاس رہنا چاہتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے، اگرچہ وہ بالغ نہ ہوئی ہو،نیز بلوغت کے بعد کا حکم کیا ہوگا۔

2۔بچی اگر اپنے والد کے ساتھ رہتی ہے اور وہاں اس کی پرورش کا انداز صحیح طور نہ ہو۔مثال کے طور پر باپ بچی کو اپنی خالہ یا بہن یا دیگر رشہ دار ہوں اور وہاں محرم کا بھی مسئلہ ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا۔

3۔اگر بچی کا والد دوسری شادی کرے اور بچی کو ان کے ساتھ رہنا پسند نہ ہو تو اس کی کیا صورت؟

الجواب باسم ملھم الصواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت آجائے اور ان کے بچے چھوٹے ہوں تو ماں کو لڑکے کی پرورش کا حق سات سال تک اور بچی کی پرورش کا حق اس کی بلوغت تک حاصل ہے،البتہ ان کا نان و نفقہ باپ کے ذمہ لازم ہے۔ لڑکوں کا نام نفقہ ان کی بلوغت تک اور لڑکیوں کا نام ونفقہ ان کی شادی تک لازم ہے ۔

لڑکا جب بالغ ہوجائے تو اس کو اختیار ملتا ہے کہ وہ والدین میں سے جس کے پاس رہنا چاہے رہ سکتا ہے لیکن لڑکی کو بلوغت کے فورا بعد یہ اختیار نہیں ملتا بلکہ جب اس کے اندر عقل وشعور پختہ ہو جائے تب اختیار ملتا ہے۔

اس تمہید کے بعد اب اپنے سوالات کا جواب ملاحظہ فرمائیں:

1. مذکورہ صورت میں بچی کی پرورش کا حق اس کی بلوغت تک ماں کو حاصل ہے۔بلوغت کے بعد شرعاً باپ کا حق ہے، بلوغت کے بعد بچی ایسی عمر کو پہنچ جائے کہ اب اس کے بارے میں کسی قسم کا خوف اور اندیشہ نہ رہے اور وہ اچھے برے کو اچھی طرح سمجھ سکے تو اسے والدین میں سے کسی ایک کے پاس رہنے کس اختیار ہوگا،البتہ اگر بچی نابالغ ہو اور ماں کے پاس رہ ہو اور اس دوران اس کی ماں بچی کے نامحرم سے نکاح کرلے یا فسق و فجور میں مبتلا ہوجائے تو بلوغت سے پہلے بھی ماں کا حق پرورش ساقط ہوجائے گا۔

تاہم بچی کا نان و نفقہ بچی کی شادی تک باپ کے ذمہ ہوگا۔

بچی ماں کے پاس رہے تو روزانہ ایک بار اسے باپ سے ملنے کی اجازت ہوگی،اسی طرح اگر باپ کے پاس رہے تو ماں کو روزانہ ایک بار بچی سے ملنے کی اجازت ہوگی۔

2. والد بچی کو اپنی بہن یا خالہ کے گھر پرورش کے لیے چھوڑتے ہیں تو اس کا حق والد کو نہیں ہے،کیونکہ تربیت کا حق بلوغت کے بعد والد کو ہوتا ہے، نہ کہ اس کی بہن وغیرہ کو، لہذا اگر باپ کے پاس تربیت صحیح نہ ہونے کا ڈر ہو تو باپ کا حق پرورش ختم ہوجائے گا،اس صورت میں بچی کی تربیت کا حق ماں کو ہوگا لیکن اگر والد بچی کو اپنی بہن،خالہ کے ہاں صرف ملاقات کے لیے لے کر جاتے ہیں تو اس سے اس کا حق پرورش ساقط نہ ہوگا البتہ والد پر لازم ہے کہ بچی کے نامحرم مردوں سے بچی کا پردہ کروائیں۔

3. اس سے والد کا حق پرورش ساقط نہ ہوگا۔

===================

حوالہ جات:

١۔”الام والجدة احق بالصغیرة حتی تحیض لان بعد الاستغناء تحتاج الی معرفة آداب النساء والمراة علی ذالک اقدر وبعد البلوغ تحتاج الی التحصین والحفظ والاب فیه اقوی واہدی۔“

(البحرالرائق:کتاب الطلاق،باب الحضانة،زکریا،٢٨٧/٤،کوئٹہ:١٧٠/٤)

٢۔”والام والجدة احق بھا،حتی تحیض ای تبلغ الخ“.

(در مختار:کتاب الطلاق،باب الحضانة،کراچی،٥٦٦/٣،زکریا،٢٦٨/٥)

٣۔”وان کانت البالغة بکراً فللاولیاء حق الضم وان كان لایخاف علیھا الفساد اذا کانت حدیثة السن۔“

(ہندیة:الباب السادس عشر فی الحضانة، زکریا قدیم:٥٤٢/١، جدید:٥٩٣/١)

٤۔”وانما یبطل حق الحضانة لھولاء النسوة بالتزوج اذا تزوجن باجنبی۔“

(ہندیة:کتاب الطلاق،الباب السادس عشر فی الحضانة، زکریا قدیم،٥٦٥/٣،زکریا،٢٦٦/٥ تا ٢٦٨)

٥۔”و بعدما استغنى الغلام و بلغت الجارية فالعصبة اولى يقدم الاقرب فالاقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما الى ان يدرك فبعد ذلك ينظر ان كان قد اجتمع رايه وهو مامون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وان كان غير مامون على نفسه فالاب يضمه الى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه الا اذا تطوع، كذا في شرح الطحاوي.

٦۔”و الجارية ان كانت ثيباً و غير مامونة على نفسها لايخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مامونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع.

٧۔”وان كانت البالغة بكرًا فللأولياء حق الضم، وان كان لا يخاف عليها الفساد اذا كانت حديثة السن واما اذا دخلت في السن واجتمع لها رايها وعفتها فليس للأولياء الضم ولها ان تنزل حيث احبت لايتخوف عليها، كذا في المحيط.”

( كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ١ / ٥٤٢ – ٥٤٣، ط: دار الفكر)

٨۔”اذا سقطت حضانة الام واخذہ الاب لایجبر علی ان یرسل لھا بل هی اذ ارادت ان تراہ لاتمنع من ذالک“.

(شامی : قبیل باب النفقة،کراچی، ٧١/٣،زکریا:٢٧٥/٥)

٩۔(الموسوعة الفقهية الكويتية:٣٠٥/١٧)

“ما يشترط فيمن يستحق الحضانة :الحضانة من الولايات والغرض منها صيانة المحضون ورعايته ، وهذا لايتأتى الا اذا كان الحاضن اهلاً لذلك، ولهذا يشترط الفقهاء شروطاً خاصةً لاتثبت الحضانة الا لمن توفرت فيه ، وهي انواع ثلاثة : شروط عامة في النساء والرجال ، وشروط خاصة بالنساء ، وشروط خاصة بالرجال .

اما الشروط العامة فهي : الامانة في الدين، فلا حضانة لفاسق ، لان الفاسق لايؤتمن ، والمراد : الفسق الذي يضيع المحضون به ، كالاشتهار بالشرب”.

١٠۔”بلغت الجاریة مبلغ النساء ان بکرا ضمھا الاب الی نفسه الا اذا دخلت فی السن واجتمع لھا رای فتسکن حیث احبت حیث لا خوف علیھا۔“

(در مختار:٢٨٠/٢)

فقط واللہ اعلم

25/اکتوبر 2021ء

18ربیع الاول 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں