طہرمتحلل کےبارےمیں امام حسن بن زیاد کےقول پرفتویٰ

بسم الله الرحمن الرحيم

بخدمت جناب حضرت مولانامفتی محمود اشرف عثمانی صاحب و مفتی عبد المنان صاحب جامعہ دار العلوم کراچی، الله تعالی آپ حضرات کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے، اور ہر طرح کی عافیت نصیب فرمائے۔ آمین

آپ کی خدمت میں ایک خاتون کا مسئلہ پیش کر رہی ہوں ،یہ صرف ان خاتون کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ اور بھی بہت سی خواتین کے ساتھ کم و بیش یہ مسئلہ پیش آرہا ہے، امید ہے کہ آپ اس پر غور کر کے جواب عنایت فرمائیں گے۔

ایک خاتون ہیں، ان کو پہلے آٹھ دن حیض آتا تھا، پھر ان کی عادت دس دن حیض آنے کی ہوگئی، یعنی دس دن حیض آتا اور بیس دن صفائی رہتی ، لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی یہ کیفیت بھی تبدیل ہوگئی ، اب ان کی عادت یہ ہوگئی ہے انہیں بارہ دن خون آتا ہے اور پھر چودہ دن صفائی رہتی ہے ، اس کے دوباره باره دن خون آتا ہے اور اب انکی یہ ہی عادت ہے کہ مسلسل انہیں ۱۲ دن خون اور ۱٤ دن صفائی رہتی ہے ،خون آنے کی تاریخ بھی مقرر نہیں ہے ، اب ان کے دوخونوں کے درمیان چونکہ ۱۵ دن کا طہر نہیں آتا، لہذا فقہ حنفی میں امام ابو یوسف رحمہ الله کے مفتی بہ قول کے مطابق یہ خاتون مستمرة کے حکم میں ہوگئی ہیں ، کیونکہ دو خونوں کے درمیان ۱۵ دن سے کم کا فاصلہ ہے اور مفتی بہ قول کے مطابق ۱۵ دن سے کم کا طہر “طہر ناقص” ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ خون مستقل جاری ہے ، اور ان خاتون کو یہ مسئلہ بتا یا جاتا ہے کہ یہ خاتون اپنی سابقہ عادت کے مطابق حیض اور طہر شمار کریں ، اب یہ خاتون جب سے انہیں سے ۱۲ ادن خون اور١٤ دن صفائی والی کیفیت شروع ہوئی ہے تب سے وہ خاتون ۱۰ دن حیض اور ۲۰ دن طہر کے شمار کرتی ہیں، لیکن اس مسئلہ پر عمل کرنے میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جن دنوں میں خون ہوتا ہے وہ دن طہر کے بنتے ہیں اور جن دنوں میں صفائی ہوتی ہے وہ حیض کے ایام بنتے ہیں حتی کہ کبھی پورا حیض ایسا گزرتا ہے کہ اس میں ایک قطرہ بھی خون نہیں ہوتا، اس پر اشکال ہوتا ہے کہ یہ بات درایت کے خلاف ہے، اور اس پر عمل کرنے میں ظاہر حالت کا ترک لازم آتا ہے کہ دم نہ ہونے کے باوجود ان ایام کو حیض سمجھا گیا، اس صوت حال کی مزید وضاحت اس درج ذیل جدول سے ہوتی ہے ۔ اس جدول میں ایام کو خانوں کی شکل میں ظاہر کیا گیا ہے ، جن خانوں میں “د”  لکھا ہے اس کا مطلب ہے کہ اس دن خون آیا ہے ، اور جس خانہ میں “ط ” لکھا ہے اس کا مطب ہے کہ اس دن خون نہیں آیا ۔ اور قاعده کے مطابق ۱۰ دن حیض اور ۲۰ دن طہر کا حساب لگانے سے جو دن حیض کے بنتے ہیں ان کورنگین خانوں کے ذریعہ ظاہر کیا گیا ہے، اور جو دن طہر کے بنتے ہیں انکو سفید خانوں کے ذریعہ ظاہر کیا گیاہے۔

ددددددددددددططططططططططططططدددد
ددددددددطططططططططططططددددددددد
دددططططططططططططططددددددددددددط
ططططططططططططططدددددددددددططططط
طططططططططددددددددددددططططططططط

اس جدول سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض ایام ایسے گزرے کہ ان میں ایک قطرہ بھی خون کا نہیں آیا اور وہ قاعدہ کے مطابق ایام حیض بن رہے ہیں، اور جن دنوں میں خون آیا وه قاعده کے مطابق طہر بن رہے ہیں ، حالانکہ عام طور پر ایسی خواتین خون کے دنوں میں نماز ترک کرتی ہیں اور صفائی کے ایام میں پڑھتی ہیں لیکن مسئلہ کے مطابق انہیں دم والے دنوں کی نمازیں ان پر فرض ہوتی ہیں، اورصفائی والے دنوں کی نمازیں معاف ہوتی ہیں، اور جب ان کو مسئلہ بتایا جاتا ہے تو وہ پریشان ہوتی ہیں ، اور بعض تو مانتی ہی نہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ، اسی طرح روزوں میں بھی قضاء کرنے کا مسئلہ ہوجاتا ہے کہ وہ خون والے ایام کے روزہ چھوڑ دیتی ہیں اور جب ان کو مسئلہ بتایا جاتا ہے تو بعض پریشان ہوجاتی ہیں ، اور بعض اس کو سمجھتی ہی نہیں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے حج کے موقع پر یہ صورتحال پیش آجاتی ہے تو خواتین ظاہری حالت کے مطابق پاکی سمجھ کر طواف زیارت و غیره بھی کرکے اپنے وطن واپس آجاتی ہیں، اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ طواف ہی نہیں ہوا ۔ اس کے علاوه ان کے ساتھ ایک اہم گھریلو پریشانی یہ پیش آتی ہے کہ جب خون آرہا ہوتا ہے تو اس وقت میاں بیوی والے تعلقات قائم کرنے پر طبیعت نہیں آتی اور جب صفائی کے دن ہوتے ہیں تو بعض اوقات ان میں سے اکثر دن حیض کے ایام بن جاتے ہیں، اب شوہر کو بتاتی ہیں تو وه اعتراض کرتے ہیں اور جو زیاده دیندار نہیں ہوتے وہ تو مانتے ہی نہیں اور جو دیندار ہوتے ہیں وہ پریشان ہوجاتے ہیں بہت سی خواتین علاج کرواکر تھک جاتی ہیں لیکن یہ تکلیف آسانی سے نہیں جاتی اگر پیریڈ بگڑجائیں تو ان کو قابو کرنا مشکل ہوجاتا۔

بہرحال اس وقت یہ خاتون جن کا ذکر میں نے ابھی کیاوہ اپنے  بارے میں یہ پوچھنا چاہتی ہیں ہے ان کیلئے فقہ حنفی میں کوئی ایسی صورت موجود ہے کہ جس کے مطابق وہ عمل کرکے اس پریشانی سے بچ سکیں، اور سہولت کے ساتھ اپنی ماہواری کا حساب رکھ سکیں ۔والسلام : بنت اقبال احمد

شمسی سوسائٹی ملیر ہالٹ کراچی

رابطہ نمبر (شوہر) 2898696 -0321

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب حامدا ومصليا

 واضح رہے کہ متاخرین نے طہر متخلل کے بارے میں امام ابو یوسف رحمہ الله کے قول پر فتوی دیا ہے ، اور ان کے قول کے مطابق مسئلہ کی صورت وہی بنتی ہے جوکہ سوال میں مذکور ہے(۱)، تاہم جن خواتین کی مسلسل عادت یہ ہو جائے کہ ان کو ۱۵ دن کا طہر نہیں آتا ، اور اس کی وجہ سے انہیں امام ابو یوسف رحمہ الله کے قول پر عمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے توایسی خواتین کیلئے ایسی صورت کہ جس پر عمل کرنے میں ان کو پریشانی نہ ہو اور وہ آسانی سے اپنے پاکی اور ناپاکی کے ایام کا حساب رکھا سکیں یہ ہو سکتی ہے کہ ایسی خواتین کیلئے طہر متخلل کے بارے میں فقہ حنفی میں جو مختلف روایات ہیں ان میں سے کسی روایت پر فتوی دیا جائے۔

 طہر متخلل کی تفصیل:

تمام احناف اس بات پر متفق ہیں کہ اگر طہر ۱۵ دن سے زیادہ ہو تو وہ دونوں خونوں کے درمیان فاصل بنے گا ، اور اگر ۱۵ دن سے کم ہو تو اگر وہ 3 دن سے بھی کم ہے تو بالاتفاق فاصل نہیں بنے گا بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ خون مستقل جاری ہے ، اور اگر طہر متخلل ۱۵ دن سے کم ہے لیکن 3 دن یا اس سے زیادہ ہے تو فاصل بنے گایا نہیں اس کے بارے میں پانچ روایات فقہ حنفی میں منقول ہیں: ۔

 طہر فاصل کی اقل مدت میں فقہ حنفی کی روایات

(1) امام ابو یوسف رحمہ الله امام ابو حنیفہ رحمہ الله سے روایت کرتے ہیں کہ طہر متخلل اگر۱۵ دن سے کم ہو تو بہر صورت فاصل نہیں بنے گا بلکہ وہ دم متوالی کی سمجھا جائے گا، لہذا اس روایت کے مطابق اگر کسی عورت کو ۱۲ دن دم اور ۱۳ دن طہر آئے تو یہ ان کے نزدیک مستمره ہوگی اور سابقہ عادت کے مطابق حیض اور طہر شمار کرے گی۔

(۲) امام محمد رحمہ الله کی امام صاحب رحمہ الله سے روایت یہ ہے کہ اگرطہر متخلل ۱۰ دن کے اندر اندر ہو اور اس کی ابتداء و انتهاء میں خون ہو تو وه فاصل نہیں بنے گا بلکہ دم جاری کے حکم میں ہوگا (۲)۔

(۳) امام زفررحمہ الله کا قول اور ابن المبارک رحمہ الله کی امام صاحب سے روایت بھی تقریبا یہ ہی ہے وہ صرف ایک شرط کا اضافہ کرتے ہیں کہ اس صورت میں دم جاری کا حکم اس وقت لگے گا جبکہ ان ۱۰ دنوں کے اندر آنے والے خون کا مجموعہ کم از کم 3 دن ہو ، اگر مجموعہ 3 دن سے کم ہو تو یہ طہر فاصل بنے گا(۳)۔

(2) امام محمدرحمہ الله کا قول یہ ہے کہ اگر طہر 3 دن سے زیاده ہو اور ایام حیض (۱۰ دن میں جو خون آیا ہے وہ اس طہر کے برابر ہے یا اس سے زیادہ ہے تو ان دونوں صورتوں میں یہ طہر فاصل نہیں بنے گا، اور اگر طہر غالب ہو تو وه فاصل بنے گا ،اب اس سے قبل اور بعد والے خون میں سے کسی ایک کو حیض بنانا ممکن ہو تو اس کو حیض بنالیں گے اگر دونوں کو بنانا ممکن ہو تو پہلے والے کو بنائیں گے اور کسی کو حیض بنانا ممکن نہ ہو تو کسی کو حیض نہیں بنائیں گے(۴)۔

امام محمد کے قول کی مزید تفصیل قواعد کی صورت میں :

(۱) طہر تین دن سے کم ہو تو وہ دم جاری کے حکم میں ہے۔

 (۲) ایام عشرة میں طہر تین دن سے زیادہ ہو لیکن اس سے پہلے اور بعد والا خون ملکر اس کے برابر ہے یا اس پر غالب ہو تو بھی یہ طہر فاصل نہیں ہے۔

 (۳) ایام عشرة میں طہر تین دن سے زیادہ ہے اور طہر اپنے سے پہلے اور بعد والے خون کے مجموعہ پر غالب ہے تو اس میں تین صورتیں ہیں:

 ١۔  ان دونوں خونوں میں سے کسی کو حیض بنانا ممکن نہیں ہے مثلا دونوں خون تین دن سے کم کم ہیں ،تو کوئی بھی حیض نہیں بنے گا۔

٢۔  ان دونوں میں سے کسی ایک کو حیض بنانا ممکن ہے خواه پہلا والا ہو یا دوسرا والا ،تو جو حیض بن سکے اسے حیض شمار کریں گے۔

 ٣۔ دونوں کو حیض بنانا ممکن ہو ،لیکن یہ دس دن کے اندر اندر نہیں ہوسکتا ، (دس دن کے اندر یہ صورت نہیں ہوسکتی کہ دونوں خونوں کے مجموعہ پرطہر غالب ہو اور دونوں کو حیض بنانا ممکن بھی ہو، کیونکہ اگر دس دن کے اندر دونوں خونوں کو حیض بنانا ممکن ہوجائے تو لازما طہر مغلوب ہوجائے گا)

٤۔ لہذا دونوں کو حیض بنانے کا امکان اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب دونوں خون اور طہر تینوں کا مجموعہ دس دن سے تجاوز کرجائے ، اس صورت میں پہلے والے کو حیض بنائیں گے۔(٥)

٥۔  امام حسن بن زياد رحمہ الله کا قول یہ ہے کہ اگر طہر متخلل ۳ دن کا ہوجائے تو وہ ہر حال میں فاصل بنے گاخواہ اس سے پہلے یا بعد کا خون اس پر غالب ہو جائے(٦)۔

ان رویات میں سے کونسی روایت قوی اور آسان ہے؟

اب ان پانچ روایات میں سے امام محمد رحمہ الله کی روایت (جودوسرے نمبر پر ذکر کی گئی ہے اگر چہ متون میں مذکور ہے لیکن اسے شروحات میں اصح قرار نہیں دیا گیا (۷)، اور امام زفر اور ابن المبارک رحمہما الله کی روایت بھی اسی پر مبنی ہے لہذا اس کو ہم یہاں نہیں لیتے ،پھر امام محمد رحمہ الله کااپنا قول ہے ،یہ قول اگر چہ صحیح قرار دیا گیا ہے اور درایۃً  قوی بھی ہے(۹)، لیکن اس کی روشنی میں مسئلہ کی عملی تطبیق دینا عام خاتون کیلئے مشکل ہے ، اسی وجہ سے فقہاء نے اس کو اختیار نہیں کیا(۱۰) ، لہذا اس کو بھی ہم یہاں نہیں لیتے، اب رہ گئی امام ابو یوسف رحمہ الله کی روایت اور امام حسن بن زياد رحمہ الله کا قول تو اس میں سے امام ابو یوسف رحمہ الله کے قول کو آسانی کی وجہ سے متاخرین نے لیا ہے(۱١)،لیکن مذکوره کیفیت سے دوچار خواتین کیلئے امام ابو یوسف رحمہ الله کے قول پر عمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے جیساکہ شروع میں گزرا ۔

حسن بن زياد رحمہ الله کا قول صحیح اور آسان بھی ہے

 لیکن اگر ہم حسن بن زياد رحمہ الله کا قول لے لیتے ہیں جسے صحیح بھی قرار دیا گیا ہے ، اور ہماری تلاش کے مطابق اس قول کو کہیں ضعیف نہیں کہا گیا، یہ امام صاحب رحمہ الله کی روایت بھی ہے، اورامام محمدرحمہ الله کے قول کے مشل ہونے کی وجہ سے یہ قوی بھی ہوجاتا ہے ، البتہ اس میں ایک بات کا اضافہ ہے امام حسن بن زیاد امام محمد کی طرح خون کی مساوات یا غلبہ کا اعتبار نہیں کرتے بلکہ ۳ دن کے طہر کو مطلقا فاصل شمار کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس قول پر عمل کرنے میں خواتین کیلئے آسانی بھی ہے، جس کی تفصیل اگلے صفحہ پر آرہی ہے اورفقہاء نے حیض کے باب میں کئی مواقع پر دو قولوں یا دو صورتوں میں سے آسان کو اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے (۱۲)۔ نیز متاخرین نے آسانی کیلئے متون کی روایت، اور امام محمد رحمہ الله کے صحیح قول کو ترک کیا ہے ، لہذا اگر کسی خاتون کیلئے دوسری روایت میں آسانی ہو تو کم از کم اس کو اس قول پر عمل کی گنجائش دینی چاہیئے۔

 حسن بن زياد رحمہ الله کا قول کیسے آسان ہے

اس قول میں آسانی اس طرح ہے کہ جب کسی خاتون کو ۱۲ دن خون اور ۱۳ دن طہر کی عادت ہوگی تو اسی کو جب پہلی مرتبہ ۱۲ دن خون آیا تو وہ اس میں سے شروع کے دس دن حیض کے شمار کرے گی اور دو دن استحاضہ کے ہونگے، پهر۱۴ دن کا طہر یہاں فاصل بنے گا لہذا یہ خاتون مستمره کے حکم میں نہیں ہوگی اور اس پر فطهرها وحيضها ما اعتادت (یعنی سابقہ عادت کے مطابق حیض و طہر شمار کرنے کا حکم بھی نہیں لگے گا۔

 حسن بن زياد رحمہ الله کے قول کے مطابق قواعد کا خلاصہ:

(۱) دو خونوں کے درمیان آنے والا طہر(صفائی ) اگر 3 دن سے کم ہو وہ دم جاری کے حکم میں ہو گا، یعنی یوں سمجھیں گے کہ ان دنوں میں بھی گویا خون آتا رہا، اور اس صورت میں اس سے پہلے اور بعد والے خون کو ملا کر ایک خون شمار کیا جائے گا، اب اگر اس کو حیض بنانا ممکن ہو یعنی سابقہ حیض کو ۱۵ دن گزر گئے ہوں، اور مجموعہ 3 دن یا اس سے زائد ہو،تو اس مجموعہ کو حیض شمار کریں گے، بشرطیکہ یہ مجموعہ دس دن سے زیادہ نہ ہوجائے ، اگر مجموعہ دس دن سے زیادہ ہوجائے تو پچھلی دفعہ جتنے دن حیض کے تھے اتنے دن حیض شمار کریں گے، باقی استحاضہ ہوگا۔

(۲) دو خونوں کے درمیان آنے والا طہر (صفائی ) اگر 3 دن سے زیاده ہو تو وہ‘‘طہر فاصل’بنے گا، یعنی اپنے سے پہلے اور بعد والے خون کو حکم میں علحده کردے گا۔

 طہر فاصل کی تعریف

 طہر فاصل وہ طہر ہے جو کہ اپنے سے پہلے اور بعد والے خون کو علحده کردے ، وه دم جاری کے حکم میں نہ ہو، بلکہ دونوں خون الگ الگ شمار ہوں،یہ نہیں سمجھا جائے کہ خون مسلسل جاری رہا۔ اس صورت میں یہ خاتون مستمره نہیں ہوگی، اور اس صورت میں احکام اس طرح ہونگے:

– طہر فاصل ہونے کی صورت میں ان دونوں خونوں میں سے اگر پہلے والے خون کو حیض بنانا ممکن ہو، یعنی سابقہ حیض کو ۱۵ دن گزر گئے ہوں، اور وہ 3 دن یا اس سے زیادہ ہو تو اس کو حیض شمار کریں گے۔

-اگر پہلے والے کو بنانا ممکن نہ ہومثلا اس خون کی ابتداء سے پہلے سابقہ حیض کو ۱۵ دن نہ گزرے ہوں،یاوه خون۳ دن سے کم ہو ،تو اگر بعد والے خون کو حیض بنانا ممکن ہو ، تو اس کو حیض شمار کریں گے۔

-اگر کوئی بھی نہ بن سکے مثلا وہ دونوں خونوں میں سے ہر ایک۳ دن سے کم ہے یا ابھی گزشتہ حیض کو۱۵ دن نہیں گزرے ، تو اس کو استحاضہ شمار کریں گے (۱۳)۔

عملی تطبیق:

 لہذا عملى تطبيق اس طرح ہوگی کہ شروع کے دس دن حیض کے ہو جائیں گے پهر ۲ دن استحاضہ ، اس کے بعد ۱٤ دن کا طہر فاصل ہے لہذا دونوں دم الگ الگ ہوگئے ، اب اس طہر کے بعد آنے والے خون کو حیض بنانا ممکن ہے کیونکہ یہ خون سابقہ حیض کے ۱۵ دن بعد ہے اس طرح کہ ۲ دن استحاضہ اور ۱٤دن صفائی کل 16 دن ہوگئے ، لہذا اس کے بعد پهر دس دن حیض دو دن استحاضہ ۱۳ دن طہر پهر دس دن حیض اسی طرح سلسلہ چلےگا۔

محمد فرحان فاروق

دارالافتاء جامعہ دار العلوم

کراچی

 

) وفي المبسوط :(3 / 172، مكتبه رشيدية)

( فصل هو دائرة الكتاب) : الأصل عند أبي يوسف ، وهو قول أبي حنيفة رحمهما الله تعالى الآخر أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لا يصير فاصلا بل يجعل كالدم المتوالي ومن أصله أنه يجوز بداية الحيض بالطهر ، ويجوز ختمه به بشرط أن يكون قبله وبعده دم فإن كان بعده دم ، ولم يكن قبله دم يجوز ختم الحيض بالطهر ولا يجوز بدايته به ، وإن كان قبله دم ولم يكن بعده دم يجوز بداية الحيض بالطهر ولا يجوز ختمة به ومن أصله أنه يجعل زمانا هو طهر كله حيضابإحاطة الدمين به۔

وفي ذخر المتأهلين :ص: 47

وأمثلة الحيض امرأة عادتها في الحيض خمسة وطهرها خمسة وخمسون رأت على عادتها في الحيض خمسة دما ۔۔۔۔ أو رأت خمسةدما وأربعة وخمسين طهرا ويوما دما وأربعة عشر ظهرا ويوما دما ۔

 وفي منهل الواردین :

لكن ههنا بدئ الحيض وختمه بالطهر ، فإن اليوم الدم المتوسط تمام مدة الطهر ، والأربعة عشر بعده في حكم الدم المتوالي لأنها طهر ناقص وقع بين الدمين ، فخمسة من اولها حيض والباقي استحاضة والعادة باقية عددا وزمانا ۔

(۲) ففي المبسوط :(3 / 173، مكتبه رشيدية)

وروى محمد عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى إن الشرط أن يكون الدم محيطا بطرفي العشرة فإن كان كذلك لم يكن الطهر المتخلل فاصلا بين الدمين وإلا كان فاصلا ، وعلى هذه الرواية لا يجوز بداية الحيض ولا ختمه بالطهر ۔

(٣) وفيه أيضا :(3 / 174، مكتبه رشيدية)

وروى ابن المبارك عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى مع هذا شرطا آخر ، وهو أن يكون المرئي في أكثر الحيض مثل أقله فإن وجد هذا الشرط فالطهر المتخلل لا يكون فاصلا ، وإن لم يوجد كان فاصلا ، ولم يكن شيء منه حيضا ، وهو قول زفر رحمه الله تعالى۔

 (۴) وفيه أيضا : (3 / 174، مكتبه رشيدية)

والأصل عند محمد رحمه الله تعالى وهو الأصح وعليه الفتوى أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان دون ثلاثة أيام لا يصير فاصلا فإذا بلغ الطهر ثلاثة أيام أو أكثر نظر فإن استوى الدم بالطهر في أيام الحيض أو كان الدم غالبا لا يصير فاصلا ، وإن كان الطهر غالبا يصير فاصلا فحينئذ ينظر إن لم يمكن أن يجعل واحد منهما بانفراده حيضا لا يكون شيء منه حيضا ، وإن أمكن أن يجعل أحدهما بانفراده حيضا إما المتقدم أو المتأخر يجعل ذلك حيضا ، وإن أمكن أن يجعل كل واحد منهما بانفراده حیضا يجعل الحيض أسرعهما إمكانا ولا يكون كلاهما حيضا إذا لم يتخللهما طهر تام ، وهو لا يجوز بداية الحيض بالطهر ، ولا ختمه به سواء كان قبله وبعده دم أو لم يكن ولا يجعل زمان الطهر زمان الحيض باحاطة الدمين به ،

(٥) وفي المبسوط :(3 / 175، مكتبه رشيدية)

وبيان مذهبه من المسائل مبتدأة رأت يوما دما ويومين طهرا ويوما دما فالأربعة حيض ؛ لأن الطهر المتخلل دون الثلاث ولو رأت يوما دما وثلاثة طهرا ويوما دما لم يكن شيء منه حيضا ؛ لأن الطهر بلغ ثلاثة أيام ، وهو غالب على الدمين فصار فاصلا وكذلك إن زادت في الطهر فإن رأت يوما دما وثلاثة طهرا ويومين دما فالسنة كلها حيض ؛ لأن الدم استوى بالطهر في طرفي الستة فصار غالبا ولو رأت يوما دما وأربعة طهرا ويوما دما لم يكن شيء منه حيضا ؛ لأن الطهر غالب وكذلك لو رأت يومين دما وخمسة طهرا ويوما دما لم يكن شيء منه حيضها ؛ لأن الطهر غالب ولو رأت ثلاثة دما وأربعة طهرا ويوما دما فالثمانية حيض لاستواء الدم بالطهر ولو رأت ثلاثة دما وخمسة طهرا ويوما دما فحيضها الثلاثة الأولى ؛ لأن الطهر غالب فصار فاصلا والمتقدم يمكن أن يجعل بانفراده حيضا فجعلناه حيضا ولو رأت يوما دما وخمسة طهرا وثلاثة دما فحيضها الثلاثة الأخيرة لما بينا فإن رأت ثلاثة دما وستة طهرا وثلاثة دما فحيضها الثلاثة الأول ؛ لأنه أسرعها إمكانا فإن قيل قد استوى الدم بالطهر هنا فلماذا لم يجعل كالدم المتوالي فلنا استواء الدم بالطهر إنما يعتبر في مدة الحيض وأكثر مدة الحيض عشرة والمرئي في

العشرة ثلاثة دم وستة طهر ويوم دم فكان الطهر غالبا فلهذا صار فاصلا۔

 وفي المحيط البرهاني: (1 / 407، ادارة القرآن)

وأما الطهر إذا كان أكثر من الدمين فيصير فاصة لأن الطهر غالب على الدم، والعبرة للغالب، وليس من عادة النساء غلبة الطهر على الدم في زمان الحيض فلو اعتبر الطهر فاصة والحالة هذه لا يؤدي إلى أن لا يتصور الحيض فجعل حاصلا، ثم ينظر إن أمكن أن يجعل أحد الدمين بانفراده حيضة يجعل ذلك حيضة وهذا ظاهر، وإن أمكن اعتبارهما حيضا يجعل المتقدم حيضة لأفما استويا في إمكان الاعتبار ويترجح السابق منهما بقوة السبق ۔ وإذا اعتبر المتقدم حيضة لا يعتبر المتأخر حيضا معه لأنه لا بد من وجود طهر تام بين الحيضتين وأقله خمسة عشر يوما ولم يوجد

 وفي البحر الرائق: (1 / 206، مكتبه رشيدية)

وقال محمد الطهر المتخلل إن نقص عن ثلاثة أيام ولو بساعة لا يفصل اعتبارا بالحيض ، فإن كان ثلاثة فصاعدا ، فإن كان مثل الدمين أو أقل فكذلك تغليبا للمحرمات ؛ لأن اعتبار الدم يوجب حرمتها واعتبار الطهر يوجب حلها فغلب الحرام الحلال ، وإن كان أكثر فصل ثم ينظر إن كان في أحد الجانبين ما يمكن أن يجعل حيضا فهو حيض والآخر استحاضة ، وإن لم يمكن فالكل استحاضة ولا يمكن كون كل من المحتوشين حيضا ؛ لأن الطهر حینئذ أقل من الدمين إلا إذا زاد على العشرة فيجعل الأول حيضا لسبقه لا الثاني ۔۔۔۔۔۔ ولو رأت ثلاثة دما وستة طهرا و ثلاثة دما فحيضها الثلاثة الأول لسبقها ولا تكون العشرة حيضا لغلبة الطهر فيها ، وإن كان مساويا باعتبار الزائد عليها۔

وفي تبيين الحقائق: (1 / 172، دار الكتب العلمية)

وقال محمد إن الطهر المتخلل إن نقص عن ثلاثة أيام ولو بساعة لا يفصل ؛ لأن ما دون الثلاث من الدم لا حكم له فكذا الطهر وإن كان ثلاثة فصاعدا وكان مثل الدمين أو أقل فكذلك ؛ لأن الدم في موضعه فكان أولى بالاعتبار وإن كان أكثر من الدمين فصل ، ثم ينظر إن كان في أحد الجانبين ما يمكن أن يجعل حيضا فهو حيض والآخر استحاضة وإن لم يكن فالكل استحاضة ولا يتصور أن يكون في الجانبين ما يمكن جعله حيضا ؛ لأنه يصير الطهر أقل من الدمين إلا إذا زاد على العشرة  فحينئذ يمكن فيجعل الأول حيضا لسبقه دون الثاني ۔

 وفي الجوهرة النيرة : (1 / 92، قديمي کتب خانه)

والأصل عند محمد أن الطهر المتخلل إذا انتقص عن ثلاثة أيام ولو بساعة فإنه لا يفصل وهو كدم مستمر ، وإن كان ثلاثة أيام فصاعدا نظرت إن كان الطهر مثل الدمين أو الدمان أكثر منه بعد أن يكون الدمان في العشرة فإنه لا يفصل أيضا وهو کدم مستمر ، وإن كان أكثر من الدمين أوجب الفصل ثم تنظر إن كان في أحد الجانبين ما يمكن أن يجعل حيضا جعل حيضا والآخر استحاضة ، وإن كان في كلاهما ما لا يمكن أن يجعل حيضا كان كله استحاضة ومن أصله أنه لا يبتدئ الحيض بالطهر ولا يختمه به سواء كان قبله دم أو بعده دم أو لم يكن قال في الهداية والأخذ بقول أبي يوسف أيسر ۔  

(٦) وفي المبسوط :(3 / 175، مكتبه رشيدية)

والأصل عند الحسن بن زياد رحمه الله تعالى أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان دون ثلاثة أيام لا يصير فاصلا فإذا بلغ الطهر ثلاثة أيام كان فاصلا على كل حال ثم ينظر إن أمكن أن يجعل أحدهما بانفراده حيضا يجعل ذلك حيضا كما بينا قبل من مذهب محمد ، وإنما خالفه في حرف واحد ، وهو أنه لم يعتبر غلبة الدم ولا مساواة الدم بالطهر ۔

(٧) وفي حاشية ابن عابدين: (1 / 290، ایچ ایم سعيد )

وأما الرواية الثانية ففي البحر قد اختارها أصحاب المتون لكن لم تصحح في الشروح۔ وفي البحر الرائق – (1 / 217): وقد اختار هذه الرواية أصحاب المتون لكن لم تصحح في الشروح كما لا يخفى ولعله الضعف وجهها فإن قياسها على النصاب غير صحيح لأن الدم منقطع في أثناء المدة بالكلية وفي المقيس عليه يشترط بقاو ((

( بقاء ) ) ) جزء من النصاب في أثناء الحول وإنما الذي اشترط وجوده في الابتداء والانتهاء تمامه۔

 (٨) وفي البحر الرائق : (1 / 207، مكتبه رشيدية)

وقد صحح قول محمد في المبسوط والمحيط وعليه الفتوى لكن قال المحقق في فتح القدير الأولى الإفتاء بقول أبي يوسف لما قدمناه۔

 وكذا في رد المحتار:290/1

وفي الجوهرة النيرة : (1 / 92)

وفي الوجيز الأصح قول محمد وعليه الفتوى ۔

 وفي المحيط البرهاني :1 / 407

والأصل عند محمد رحمه الله وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله وعليه فتوى كثير من المشايخ أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من ثلاثة أيام لا يصير فاصلا بين الدمين ويجعل ذلك كله كالدم المتوالي ۔ وإن كان ثلاثة أيام فصاعدة إن كان الطهر مثل الدمين أو أقل من الدمين لا يعتبر فاصلا أيضا، ويجعل ذلك كله بمنزلة الدم المتوالي۔۔۔الخ

 (9) وفي المبسوط للشيباني :(1 / 472،ادارة القرآن)

وقال محمد كيف يكون الطهر حيضا بساعة من نهار رأت فيه الدم والدم المعروف الذي يشبه الحيض ليس بحيض ينبغي أن قال هذا أن يقول لو أن هذه المرأة ثبتت على هذا عشرين سنة من عمرها ترى في أول الشهر الدم ساعة من غار ثم ينقطع ثم تراه اليوم العاشر والحادي عشر والثاني عشر والرابع عشر حتى تراه خمسة أيام فكانت ترى الدم هكذا في كل شهر أول الشهر ساعة وخمسة أيام على هذه الصفة لكان الحيض في قوله الخمسة الأولى من الشهر التي رأت فيها الطهر إلا ساعة حیض وهذه الخمسة الأيام التي رأت فيها الدم طهر كلها تصوم فيها وتصلي ويأتيها زوجها ليس هذا بشيء والأمر على ما وصفت۔

(١٠) وفي البحر الرائق : (1 / 206، مكتبه رشيدية)

لأن في قول محمد وغيره تفاصيل يحرج الناس في ضبطها۔

وفي العناية على هامش فتح القدير : (1 / 153، المكتبة الرشيدية )

والأخذ بهذا القول ) أي قول أبي يوسف ( أيسر ) يعني للمفتي والمستفتي ؛ لأن في قول محمد تفاصيل يشق ضبطها ۔

 وفي البناية:(6561، مكتبه رشيدية)

لأن في قول محمد تفاصيل يشق ضبطها خصوصا على الحيض القاصرات العقل۔

 وفي مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر: (1 / 79 ، دار الكتب العلمية)

وكثير من المتأخرين أفتوا بهذه الرواية الأنفا أيسر على المفتي والمستفتي لقلة التفاصيل التي يشق ضبطها۔ وفي حاشية الشلبي على التبيين: (1 /172)

قوله : لأنها أسهل) لعدم التفاصيل بخلاف رواية محمد۔

( ١١)وفي حاشية ابن عابدين: (1 / 290)

وفي الهداية الأخذ بقول أبي يوسف أيسر اه۔ وكثير من المتأخرين أفتوا به لأنه أسهل على المفتي والمستفتي ۔ سراج۔ وهو الأولى۔

فتح۔ وهو قول أبي حنيفة الآخر ۔ نهاية۔

وفي الهندية: (1 / 37)

وروى أبو يوسف عن أبي حنيفة أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لم يفصل وكثير من المتأخرين أفتوا بهذه الرواية لأنها أسهل على المفتي والمستفتي كذا في التبين وهكذا في الزاهدي والأخذ بمذا أيسر كذا في الهداية

(۱۲) اس کی تین مثالیں یہ ہیں:

 وفي منهل الواردين:

وأكثره أي أكثر الحيض عشرة كذلك أي مقدرة مع لياليها بالساعات أعني مائتين وأربعين ساعة ۔نعم ذكر في التاتار خانية أنا لو أخبرت المفتي بأنها طهرت في الحادي عشر أخذ لها بعشرة أو في العاشر أخذ بتسعة ، ولا يستقصي في الساعات ليلا بعسر عليها الأمر ، وهكذا يفعل في جميع الصور ، إلا في أقل الحيض وأقل الطهر مخافة النقص عن الأقل ۔ زاد القهستاني عن

حاشية الهداية : أن عليه الفتوى، ومثله في معراج الدراية۔

وفي حاشية ابن عابدين : (1 / 289)

وفي المعراج عن فخر الأئمة لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلبا للتيسير كان حسناء وفي حاشية ابن عابدين (1 /290)

وفي الهداية الأخذ بقول أبي يوسف أيسر اه وكثير من المتأخرين أفتوا به لأنه أسهل على المفتي والمستفتي سراج۔

 وفي المحيط البرهاني (1 / 407)

وبعض مشايخنا أخذوا بقول أبي يوسف رحمه الله، وبه كان يفتي القاضي الإمام صدر الإسلام أبو اليسر رحمه الله وكان يقول: قول أبي يوسف أيسر وأسهل على النساء وعلى المفتي، ولا حرج في ديننا فكان الأخذ بقوله أولى، وعليه استقر رأي الصدر الشهيد حسام الدين رحمه الله وبه يفتي،

(١٣) في المبسوط :(3 / 176، مكتبه رشيدية)

وبيانه من المسائل مبتدأة رأت يوما دما ويومين طهرا ويوما دما فالأربعة حيض وكذلك لو رأت ساعة دما وثلاثة أيام غير ساعة طهرا وساعة دما فالكل حيض فإن رأت يومين دما وثلاثة طهرا ويوما دما لم يكن شيء منه حيضا على قوله ؛ لأن الطهر المتخلل بلغ ثلاثة أيام وواحد منهما بانفراده لا يمكن أن يجعل حيضا ، وإن رأت يوما دما وثلاثة طهرا وثلاثة دما فعنده الثلاثة الأخيرة حيض ، ولو كانت رأت أولا ثلاثة دما كان الحيض هذه الثلاثة ، وإن رأت ثلاثة دما وثلاثة طهرا وثلاثة دما فالحيض عنده الثلاثة الأولى ؛ لأنه أسرعهما إمكانا والله أعلم ۔

 وفي تبيين الحقائق (1 / 175، دار الكتب العلمية)

وعند الحسن بن زياد الطهر المتخلل بين دمين إذا نقص عن ثلاثة أيام لم يفصل كقول محمد وإن كان ثلاثة فصل كيفما كان ، ثم ينظر فإن أمكن أن يجعل الدم في أحد الجانبين حيضا وهو حيض والآخر استحاضة وإن لم يمكن فالكل استحاضة فإن أمكن الجانبان فالأول حيض لسبقه والثاني استحاضة ۔

وفي البحر الرائق: (1 / 207، مكتبه رشيدية)

وروى الحسن بن زياد عن أبي حنيفة إن نقص الطهر عن ثلاثة لم يفصل ، وإن كان ثلاثة فصل كيفما كان ثم ينظر إن أمكن أن يجعل أحدهم بانفراده حيضا يجعل ذلك حيضا كما قاله محمد ، وإنما خالفه في أصل واحد وهو أنه لم يعتبر غلبة الدم ولا مساواته بالطهر ۔

 وفي الجوهرة النيرة : (1 / 93-92، قديمي)

والأصل عند الحسن بن زياد أن الطهر المتخلل إذا نقص عن ثلاثة أيام لا يوجب الفصل كما قال محمد ، وإن كان ثلاثة فصاعدا فصل في جميع الأحوال سواء كان مثل الدمين أوالدمان أكثر منه ثم ينظر بعد ذلك كما نظر محمد۔ بيان هذه الأصول: امرأة رأت يوما دما وثانية أيام طهرا ويوما دما و رأت ساعة دما وعشرة أيام غير ساعتين طهرا ثم ساعة دما فهو حيض كله عند أبي يوسف ، ويكون الطهر المتخلل كدم مستمر وعند محمد وزفر والحسن لا يكون منه حيضا أما عند زفر فلأنها لم تر في أكثر مدة الحيض أقله وعند محمد الطهر أكثر من الدين وليس في أحد الجانبين ما يصلح أن يكون حيضا ۔ وكذا عند الحسن، ولو رأت يومين دما وسبعة طهرا ويوما دما أو يوما دما وسبعة طهرا أو يومين دما ۔۔۔ وعند محمد والحسن لا يكون شيء من ذلك ؛ لأن الطهر أكثر من ثلاثة أيام وهو أكثر من الدمين وليس في أحد الجانبين ما يمكن أن يجعل حيضا ، ولو رأت ثلاثة أيام دما وستة أيام طهرا ويوما دما أو رأت يوما دما وستة طهرا وثلاثة دما ۔۔۔ وعند محمد والحسن الثلاثة تكون حيضا من أول العشرة في الفصل الأول ومن آخرها في الفصل الثاني وما بقي استحاضة ، ولو رأت أربعة أيام دما وخمسة أيام طهرا ويوما دما أو يوما دما وخمسة طهرا وأربعة دما ۔۔۔ وعند الحسن يفصل۔

تتمہ

فإن قيل: بأن قول أبي يوسف رحمه الله بأن “الطهر المتخلل بين الدمين الأقل من خمسة عشر يوما في حكم الدم المتوالي ” ، مختض بوقوع ذلك الطهر بعد الدم الصحيح ۔ لكن لو وقع ذلك الطهر المتخل المذكور بعد الدم الفاسد وصارت مجموعة أيام هذا الطهر (النقاء) وأيام الإستحاضة من الدم الفاسد ،أكثر من خمسة عشر يوما كما في الصورة المسؤلة عنها ، ففي هذه الصورة لا يكون هذا الطهر كالدم المتوالي بل مجموع هذا الطهر يعد فاصلا بين الحيضتين۔

 قلت : عندما نتتبع عبارات الفقهية ، نجد أن قول أبي يوسف “الطهر المتخلل “مطلق ، ولم يفصل عنده بين أن يقع هذا الدم بين الحيضتين أو بين الدمين، وكذلك أن يقع بعد الدم الصحيح أو الفاسد ۔ فجملة ما في الكلام إن الأمر سوي في جميع الصور بشرط أن يكون الطهر أقل من خمسة عشر يوما۔

في درر الحكام شرح غرر الأحكام – (1 / 172)

فعند أبي يوسف وهو قول أبي حنيفة آخرا لا يفصل ولو أكثر من عشرة أيام بل هو أيضا كالدم المتوالي عنده لأنه طهر فاسد لا يصلح للفصل بين الحيضتين لما مر أن أقل الطهر خمسة عشر يوما فكذلك لا يصلح للفصل بين الدمين لأن الفاسد لا يتعلق به أحكام الصحيح شرعا فيجوز بداءة الحيض وختمه بالطهر على هذا القول

 وفي المبسوط – (4 / 283)

الأصل عند أبي يوسف ، وهو قول أبي حنيفة رحمهما الله تعالى الآخر أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لا يصير فاصلا بل يجعل كالدم المتوالي۔۔۔۔ وحجته في ذلك أن الطهر الذي هو دون خمسة عشر يوما لا يصلح للفصل بين الحيضتين فكذلك للفصل بين الدمين

 وفي منهل الواردين

وإن رأت دما وطهرا فاسدين فلا إعتبار بهما ، فإن كان الطهر ) قد فسد بكونه ( ناقصا تكون كالمستمر دمها ابتداء عشرة من ابتداء الإستمرار، ولو حکما حيضها وعشرون طهرها، ثم ذلك دأبها ۔ مثاله مراهقة رأت أحد عشر دما وأربعة عشر طهرانم استمر الدم ،) فالدم الأول فاسد لزيادته على العشرة ، وكذا الطهر النقصانه عن خمسة عشر ، فلا يصلح واحد منهما لنصب العادة ، ويحكم على هذا الطهر بأنه دم (فالإستمرار حكما من أول ما رأت أي من أول الأحد عشر ( لما عرفت أن الطهرالناقص كالدم المتوالي۔ )لا يفصل بين الدمين ، وإا كان كذلك صار الإستمرار الحكمي من أول الدم الأول وهو الأحدعشر

وفي منهال الواردين

(والطهر الصحيح ما لا يكون أقل من خمسة عشر يوما ولا يشوبه دم)” أصلا، لا في أوله ، ولا في وسطه ، ولا في أخره”، مصنف۔ فلو كان خمسة عشر لكن خالطه دم صار طهرا فاسدا۔ (ويكون بين الدمين الصحيحين) “احتراز عما يكون بين الإستحاضتين، أو بين حيض وإستحاضة۔۔۔” مصنف۔

(والطهر الفاسد ما خالفه في واحد منه) أي : ما ذكر في تعريفه ، بأن كان أقل من خمسة عشر ، أو خالطه دم أو لم يقع بين دمين صحيحين ۔۔

(والطهر التام) صحيحا كان أو فاسدا كما قدمناه : (طهر خمسة عشر يوما فصاعدا)۔

(والطهر الناقص ) هو قسم من الطهر كما علمته : (ما نقص منه) أي: من التام ۔

وكتبه العبد محمد فرحان فاروق

1432/4/29 ھ

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/618984885137427/

اپنا تبصرہ بھیجیں