عمرہ کی نذر

سوال:  کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں

ایک عورت کی شادی ہوگئی اس کے شوہر کی 5 بہنیں ہیں ۔ اس عورت نے یہ نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اولاد دے دیں تو میں ان پانچوں کو عمرہ کراؤں گی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو بیٹی  کی نعمت سے نوازا ۔ اس عورت نے دو کو عمرہ کرایا مگر باقی تینوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں  ۔

اب یہ عورت اپنی نذر کس طرح پوری کر سکتی ہے؟

کیا وہ کسی اور کو عمرہ پر بھیج سکتی ہے؟

یا رعمرہ کی رقم کسی مسجد کی تعمیر میں دے سکتی ہے؟

اس نذر کا کفارہ کیا ہوگا؟

الجواب حامدا و مصلیا

صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کے ان الفاظ “اگر اللہ تعالیٰ مجھے اولاد دے دیں تو میں ان پانچوں (بہنوں )کو عمرہ کراؤں گی”سے نذرکا منعقد ہونا راجح معلوم ہوتا ہے لہذا بعد میں بیٹی پیدا ہونے پر یہ نذر پوری کرنی چاہیے ۔اس عورت کے لیے بہتر یہ ہے کہ شوہر کی بقیہ تین بہنوں کو عمرہ کرائے ،تاہم ان کے بجائے دوسرے تین افراد کو عمرہ کراکر اپنی نذر پوری کرنے کا اختیار بھی اس کو حاصل ہے،البتہ اس عورت کو یہ اختیار نہیں کہ عمرہ کی رقم کسی مسجد یا مدرسہ کی تعمیر میں دے نیز اس نذر کا کوئی اور کفارہ بھی نہیں۔

مذکورہ نذر کے منعقد ہونے سے متعلق وضاحت یہ ہے کہ حج یا عمرہ کی نذر ماننا جائز اور درست ہے اور کسی دوسرے شخص کو حج کرانے کی نذر ماننا بھی اپنے حج کرنے کی نذر کی طرح جائز اور درست ہے  اور اس کی وجہ “المبسوط للسرخسی”اور”فتح القدیر”میں یہ بیان کی گئی ہے کہ “جب خود حج فرض ادا کرنے سے معذوری اور مایوسی ہو جائے تو کسی دوسرے کو اپنا مال دے کر حج ِبدل کرا کر اس حج کوادا کیا جاتا ہے لہٰذا یہ نذر حج بدل کے حکم میں ہوئی اور چونکہ اصل اور بدل دونوں کا حکم ایک ہی ہوتا ہے لہذا اگر کسی نے اپنے اوپر کسی دوسرے کو حج کرانے کا التزام کیا تویہ التزام ایسے ہی درست اور صحیح ہے جیسا کہ خود اپنے اوپر حج کرنے کا التزام درست اور صحیح ہے”۔

البتہ کسی دوسرے کو عمرہ کرانے کی نذر ماننے کے جواز سے متعلق کوئی صراحت کتب فقیہہ میں باوجود تلاش کے نہیں مل سکی ،تاہم حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب “منہج الخیر فی الحج عن الغیر (حجِ بدل اور اس کے احکام)”میں تحریر فرمایا ہے کہ”جس شخص کے ذمہ حج فرض ہو یا اس نے بذریعہ نذر (منت )اپنے اوپر حج یا عمرہ کو لازم کرلیا ہو پھر خود ادا کرنے کی قدرت نہ رہی جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے توایسے شخص کا حج یا عمرہ بطور ِبدل ادا کرانے کے لیے 20شرطیں ہیں”۔

مذکورہ عبارت میں عمرہ کی نذر سے معذوری اور مایوسی کی صورت میں عمرہِ بدل کرانے کو فرمایا ہے،اس عبارت کی رو سے عمرہ کرانے کی نذر کا جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ حج کرانے کی نذر کے درست ہونے کی جو وجہ اور علت”المبسوط للسرخسی”اور”فتح القدیر”میں بیان کی گئی ہے وہ یہاں بھی موجود ہے کیونکہ یہاں بھی اپنے عمرہ کی نذر کی ادائیگی سے معذور اور مایوس ہونے کی صورت میں عمرہ ِبدل کرانا واجب ہے، لہذا معلوم ہوا کہ عمرہ کرانے کی نذر درحقیقت عمرہ ِبدل کی نذر ہے اور جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ اصل اور بدل دونوں کا ایک حکم ہوتا ہے لہذا عمرہ کرانے کی نذر کا التزام ایسے ہی درست اور صحیح ہونا چاہیے جیسا کہ خود عمرہ کرنے کی نذر کا التزام درست اور صحیح ہے۔

لما فی شرح فتح القدیر – (ج:3، ص:174)

و من قال ان فعلت کذا فعلی ان احج فان نوی احج و ھو معی فعلیہ ان یحج و لیس علیہ ان یحج بہ و ان نوی ان یحجہ فعلیہ ان یحجہ لان الباء للالصاق فقد الصق فلانا بحجہ و ھذا یحتمل معنین ان یحج فلان معہ فی الطریق و ان یعطی فلانا ما یحج بہ من المال و التزام الاول بالنذر غیر صحیح و الثانی صحیح لان الحج یؤدی بالمال عند الیاس من الاداء فکان ھذا فی حکم البدل و حکم البدل حکم الاصل فصحیح التزامہ بالبدل کما یصح التزامہ بالاصل فاذا نوی الوجہ الاول عملت نیتہ لاحتمال کلامہ و لکن المنوی لا یصح التزامہ بانذر فلا یلزمہ شیء و انما علیہ ان یحج بنفسہ خاصۃ و ان نوی الثانی لزمہ فاما ان یعطیہ من المال ما یحج بہ او یحجہ مع نفسہ لیحصل الوفاء بانذر فان لم یکن لہ نیۃ اصلا فعلیہ ان یحج و لیس علیہ ان یحج فلانا لان لفظہ فی حق فلان یحتمل الوجوب و عدمہ و المعین فعلی ان احج فلانا فھذا محکم و النذر بہ صحیح۔

و فی المبسوط للشیبانی (ج:2، ص:486)

و ان قال ان فعلت کذا فانا احج بفلان فحنث فان کان نوی فانا احج و ھو معی فعلیہ ان یحج و لیس علیہ ان یحج بہ و ان کان نوی ان یحجہ فعلیہ ان یحجہ و لیس علیہ ان یحج بہ و ان کان نوی ان یحجہ فعلیہ ان یحجہ کما نوی و ان ارسلہ فاحجہ جاز و ان احج معہ جاز و ان لم یکن لہ لیلۃ فعلیہ ان یحج ھو و لیس علیہ ان یحجج فلانا و ان کان قال فعلی ان احجج فلانا فعلیہ ان یحججہ۔

المبسوط للسرخسی (ج:4، ص:238)

و ان قال ان فعلت کذا فانا احج بفلان فحنث فان کان نوی فانا احج و ھو معنا فعلیہ ان یحج و لیس علیہ ان یحج بہ و ان نوی ان یحجہ فعلیہ ان یحججہ کما نوی لان الیاء للالصاق فقد الصق فلانا بحجۃ و ھذا یحتمل معنین ان یحج فلان معہ فی الطریق و ان یعطی فلانا ما یحج بہ من المال و التزام الاول بالنذر غیر صحیح و التزام الثانی صحیح لان الحج یؤدی بالمال عند الیاس عن الاداء بالبدن فکان ھذا فی حکم البدل و حکم البدل حکم الاصل التزامہ بالبدل کما یصح التزامہ بالاصل۔

فان نوی الوجہ الاول عملت نیتہ لاحتمال کلامہ و لکن المنوی لا یصح التزامہ بالنذر فلا یلزمہ بہ شیء و انما علیہ ان ان یحج بنفسہ فقط، و ان نوی الثانی فقد نوی ما یصح التزامہ بالنذر فیلزمہ ذلک و اذا لزمہ ذلک فاما ان یعطیہ من المال ما یحج بہ او یحج بہ مع نفسہ لیحصل بہ الوفاء بالنذر فان لم یکن لہ نیۃ فعلیہ ان یحج و لیس علیہ ان یحجج فلانا لان لفظہ المحتمل و ان کان قال فعلی ان احج فلانا فھذا محکم غیر محتمل فانہ تصریح الالتزام باحجاج فلان و ذلک صحیح بالنذر۔

غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک (ص:379) ط ادارۃ القرآن

و من قال: ان فعلت کذا فعلی ان احج بفلان، فان نوی احج، و ھو معنی، فعلیہ ان یحج، و لیس علیہ ان یحج بہ، و ان نوی ان یحجہ، فعلیہ ان یحجہ، اما بان یعطیہ من المال ما یحج بہ، او یحجہ مع نفسہ، فان لم یکن لہ نیۃ اصلا، فعلیہ ان یحج و لیس علیہ ان یحج فلانا، و لو قال: فعلی ان احج فلانا، زاد فی الکبیر او فعلی ان یحج فلانا، فھذا محکم، فعلیہ ان یحجہ ملخص ما فی الفتح۔

 و فی البدائع الصنائع (ج:5، ص:82)

و یصح النذر بالصلاۃ و الصوم و الحج و العمرۃ و الاحرام بھما و العتق و البدنۃ و الھدی و الاعتکاف و نحو ذلک، لانھا قرب مقصودۃ۔

 و فی البدائع الصنائع (ج:5، ص:83)

و الذی لیس بقربۃ مقصودۃ فیجب العمل بعمومہ فیما وراءہ و من مشایخنا من اصل فی ھذا اصلا فقال: ما لہ اصل فی الفروض یصح النذر بہ و لا شک ان ما سوی الاعتکاف من الصلاۃ و الصوم و غیرھما لہ اصل فی الفروض، و الاعتکاف لہ اصل ایضا فی الفروض و ھو الوقوف بعرفۃ و ما لا اصل لہ فی الفروض لا یصح النذر بہ کعیادۃ المرض و تشییع الجنازۃ و دخول المسجد و نحوھا و علل بان النذر ایجاب العبد فیعتبر بایجاب اللہ تعالی۔

و فی حاشیۃ ابن عابدین (ج:3، ص:826)

مطلب قال علی المشی الی بیت اللہ تعالی او الکعبۃ قولہ (و یجب حج او عمرۃ ماشیا الخ) ای استحسانہ و عللہ فی الفتح بانہ تعورف ایجاب احد النسکین بہ فصار فیہ مجازا لغویا حقیقۃ عرفیہ مثل ما لو قال علی حجۃ او عمرۃ۔

و فی حاشیۃ ابن عابدین (ج:3، ص:742)

قولہ (و لم یزد علیہ) فلو قال نذر حج مثلا لزمہ قولہ (و لو نوی صیاما الخ) محتزر قولہ و لا نیۃ لہ و اشار الی انہ لو نوی شیئا من حج او عمرۃ او غیرہ فعلیہ ما نوی۔

و فی الفتاوی الھندیۃ (ج:2، ص:65)

و لو جعل علیہ حجۃ او عمرۃ او صوما او صلاۃ او صدقۃ او ما اشبہ ذلک مما ھو طاعۃ ان فعل کذا ففعل لزمہ ذلک الذی جعلہ علی نفسہ و لم تجب کفارۃ الیمین فیہ فی ظاھر الروایۃ عندنا۔

و فی البحر الرائق (ج:4، ص:322)

کقولہ ان فعلت کذا فعلی نذر فان نوی قربۃ من القرب التی یصح النذر بھا نحو الحج و العمرۃ فعلیہ ما نوی۔

و فی بدایع الصنائع (ج:5، ص:86)

و لو قال: للہ علی ان اطعم ھذا المسکین ھذا الطعام بعینہ فاعطی ذلک الطعام غیرہ اجزاہ؛ لان الصدقۃ المتعلقۃ بمال متعین لا یتعین فیھا المسکین؛ لانہ لما عین المال صار ھو المقصود فلا یعتبر تعیین الفقیر، و لافضل ان یعطی الذی عینہ۔

و لو قال: للہ علی ان اطعم ھذا المسکین شیئا سماہ و لم یعینہ، فلا بد ان یعطیہ الذی سماہ؛ لانہ اذا لم یعین المنذور صار تعیین الفقیر مقصودا، فلا یجوز ان یعطی غیرہ۔

و فی شرح فتح القدیر (ج:4، ص:223)

و لو قال للہ علی ان اطعم ھذا المسکین ھذا الطعام فاطعم ھذا الطعام مسکینا آخر اجزاہ و لو قال للہ علی ان اطعم ھذا المسکین شیئا و لم یعین ذلک فلا بد ان یطعم ذلک المسکین۔

و فی الفتاوی الھندیۃ(ج:1، ص:262)

فللہ علی ان احج حتی یلزمہ الوفاء اذا وجد الشرط و لا یخرج بلکفارۃ فی ظاھر الروایۃ عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ کذا فی البدائع۔

اعلم اللہ تعالیٰ بالصواب

محمد نوید

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

11/ربیع الاول/1432ھ

17/مارچ/2011ء

حوالہ جات اور پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/958189444550301/

اپنا تبصرہ بھیجیں