عدالتی خلع کی ایک صورت

فتویٰ نمبر:408

سوال: میری شادی چار سال قبل ہوئی  میری بیوی شادی کے دو سال بعد اپنے چچا کے ہمراہ میکے  گئی ۔ جاتے وقت وجہ تنازع بالکل نہ تھی ۔ میکے جاکر دو ماہ بعد والدین کے ساتھ مل کر میرے خلاف تنسیخ نکاح کا  جھوٹا مقدمہ دائر کردیا ۔ اور دعویٰ  میں مجھ پر نشہ   کرنے کا جھوٹا الزام  لگایا جبکہ اس کا  حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ دوسرا الزام  یہ لگایا  کہ مجھے مار پیٹ   کر گھر سے  نکالا گیا جبکہ  میری بیوی راضی خوشی  اپنے چچا کے ہمراہ  میرے گھر  سے گئی تھی ۔ میری بیوی نے  عدالت میں جھوٹی  شہادت  دے کر  تنسیخ نکاح کی  ڈگری   اپنے حق میں لے لی ہے ۔ جبکہ گواہوں کی شہادت بھی موجود نہیں ۔ صرف اکیلی  میری بیوی  کی شہادت پر عدالت  نے  ڈگری دی ہے ۔ جبکہ میں  نے اپنی  بیوی کو طلاق نہیں دی ہے ۔ اور  نہ ہی  جج  نے طلاق دینے  کے بارے  کہا آیا اس صورت  میں عدالت  کے ناکح  فسخ  کرنے سے  طلاق واقع  ہوگئی یا نہیں ہوئی ۔

جواب  : اگر واقعتا ً صورتحال  یہی ہے  جو سوال میں لکھ  کر بھیجی گئی  ہے تو اس صورت  میں عدالت  کے نکاح  فسخ  کرنے سے طلاق واقع نہیں  ہوئی ۔ آپ کی بیوی بدستور آپ کے نکاح میں ہے   ۔

 قال العلامۃ  الشامی ؒ  :  واما   رکنہ  فھو  کما فی  البدائع  اذا کان  بعوض  الایجاب  و  القبول  ، لانہ   عقد  علی  الطلاق بعوض ، فلا  تقع الفرقۃ ، ولا یستحق العوض  بدون  القبول ۔ ” ( رد المختار :2/606)

 وقال ایضاً : “قولہ  ( وعکسہ  ) ای  لو ادعت  الخلع  لا یقع  بدعواھا  شیء ۔ لانھا لا تملک  الا  یقاع ۔۔ ولان  الزوج   بانکارہ قدرد اقرارھا بہ ۔” (  رد المختار : 2/612)

اپنا تبصرہ بھیجیں