امانت کا حکم

سوال :السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.

مفتی صاحب کسی طالبہ نے استاذہ کی امانت کتاب لوٹانے کی پوری کوشش کی مگر ممکن نہ ہوا اور اب تقریباً پندرہ سال ہونے کو ہیں تلاش کے باوجود کامیابی نہیں ہوئی تو اب اس امانت کا کیا حکم ہوگا ؟رہنمائی درکار ہے؟

جزاکم اللہ خیرا کثیرا کثیرا فی الدارین.

الجواب باسم ملہم الصواب

مذکورہ صورت میں کتاب طالبہ کے پاس امانت ہے اور امانت کا حکم یہ ہے کہ تمام عمر امانت کے مالک کی تلاش ممکن حد تک کی جائے،اگر مالک نہ ملے تو اس کے ورثاء کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے، امانت کو لقطے کی طرح صدقہ خیرات نہیں کیا جاسکتا، جب کبھی مالک آگیا تو اسے اپنی چیز کے واپس مانگنے کا حق ہوگا۔

صورت مذکورہ میں زید کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ گھڑیوں کی قیمت خیرات کر کے اپنی ملک بنالے، بلکہ تمام عمر ممکن حد تک ان کی حفاظت کرنی چاہیے، تاوقتیکہ اصل مالک اسے لے جائے یا اس کی طرف سے کوئی ہدایت موصول ہو، یا اس کی موت کا علم ہوجائے، تو اس کے ورثہ کے سپرد کردیا جائے، کیونکہ یہ گھڑیاں زید کے پاس بطور امانت ہیں، اور امانت کو لقطہ کی طرح صدقہ نہیں کیا جاسکتا. (فتاوی عثمانی 472/3، مکتبہ معارف القرآن کراچی)

ودليل الكبرى في قوله غاب المودِع ولا يدري حياته ولا مماتهُ يحفظها ابدا حتى يعلم بموته وورثته كذا في الوجيز للكردي ولا يتصدق بها بخلاف اللقطة كذا في الفتاوى العتابية(عالمگیریہ ج:٤ص:٣٥٢).

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں