بچے کا ماں کے دودھ کو کپڑے پر نکال دینے کا حکم 

فتویٰ نمبر:3017

سوال:

السلام علیکم! باجی مجھے یہ پوچھنا ہے کہ ماں کا دودھ اگر بچہ کپڑوں پر نکال دے تو کیا وہ کپڑے ناپاک ہو جائیں گے؟ یا ماں کا دودھ ویسے ہی کپڑے میں لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا کپڑے ناپاک ہو جائیں گے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

بچے نے اگر ماں کا دودھ پینے کے بعد قے کر کے نکال دیا ہے تو وہ دودھ اگر منہ بھر کر ہے تو ناپاک ہے۔ کیونکہ پیٹ کی نجاستیں اس کے ساتھ مل گئیں ہیں۔کپڑے پر لگ گیا تو کپڑا بھی ناپاک ہوجائے گا۔اور اگر منہ بھر سے کم ہے تو ناپاک نہیں ہے (۱)

لیکن اگر بچے نے ماں کا دودھ پیا اور حلق میں جانے سے پہلے ہی باہر نکال دیا یا خود ماں کا دودھ نکل آیا تو یہ دودھ ناپاک نہیں ہے۔ اگر کپڑے پر لگ جائے تو دھونے کا بھی حکم نہیں ہے، البتہ بطور نظافت دھو لینا بہتر ہے۔(۲)

(۱)ینقضہ قئی ملأفاہ من مرۃ اوعلق اواطعام ااوماء اذا وصل اِلٰی معدتہ وان لم یستقر وھونجس مغلظ ولومن صبی ساعۃ ارتضاعہ وھوالصحیح۔لمخالطۃ النجاسۃ ۔(الدرالمختار علٰی صدرردالمحتار: مطلب نواقض الوضوء، ۱۳۷/۱)

’’وکذا الصبي إذا ارتضع وقاء من ساعتہ قیل وہو المختار والصحیح ظاہر الروایۃ أنہ نجس لمخالطۃ النجاسۃ وتداخلہا فیہ بخلاف البلغم وبخلاف ما ذکر في القنیۃ أنہ لو قاء دودًا کثیرًا أو حیۃ ملأت فاہ لا ینقص ، وذلک لأنہ ظاہر في نفسہ ولم تتداخلہ النجاسۃ وما یستتبعہ قلیل لا یبلغ ملأ الفم ‘‘ ( حلبي کبیر: کتاب الطہارۃ ، فصل في نواقض الوضوء،۱۲۹)

’’قال الحسن : إذا تناول طعاماً أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینقض لأنہ طاہر حیث لم یستحل وإنما اتصل بہ قلیل القيء فلا یکون حدثاً فلا یکون نجساً ، وکذا الصبي إذا ارتضع وقاء من ساعتہ وصحیحہ في المعراج وغیرہ ، ومحل الاختلاف ما إذا وصل إلی معدتہ ولم یستقر ، أما لو قاء قبل الوصول إلیہا وہو في المرئی فإنہ لا ینقض اتفاقاً کما ذکرہ الزاہدي ، وفي فتح القدیر : لو قاء دودًا کثیرًا أو حیۃ ملأت فاہ لا ینقض لأن ما یتصل بہ قلیل وہو غیر ناقض ‘‘ ( البحر الرائق : کتاب الطہارۃ،۶۷/۱)

’’إن ریق الطفل ولعابہ طاہران لما ثبت عن أبي ہریرۃ قال : رأیتُ النبي ﷺ حامل الحسن بن علي علی عاتقہ ولعابہ یسیل علیہ ۔ والأصل الطہارۃ ما لم ینقل عنہا ناقل صحیح لا یعارضہ ما یساویہ أو یقدم علیہ ‘‘

’’قال ابن القیم : ہذہ المسئلۃ مما تعم بہ البلوی ، وقد علم الشارع أن الطفل یقيء کثیرًا ولا یمکن غسل فمہ ولا یزال ریقہ ولعابہ یسیل علی من یربیہ ولم یأمر الشارع بغسل الثیاب من ذلک ولا منع من الصلاۃ فیہا ولا أمر بالتحرز من ریق الطفل ‘‘ (اتحاف أولی الألباب بحقوق الطفل وأحکامہ: مسائل متنوعۃ، ۴۴۷ )

فقط

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:17 ربیع الثانی 1440ھ

عیسوی تاریخ:24 دسمبر 2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں