یوں تو دنیا میں متعدد چیزیں ہیں جو قدیم ہیں یا پھر قدیم چیزوں کی باقیات اور بچے کھچے آثار ہیں۔ قبل از تاریخ کی اقوام اور ان کی تہذیبیں، قدیم طرز تعمیر کے شاہکار، قدیم عقائد و نظریات اور قدیم دنیا کے عجیب الخلقت حیوانات کی باقیات، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو یا انتہائی قدیم ہیں یا ان کی باقیات شمار کی جاتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی چیزوں کی قدامت کا ابھی تک ماہرین کو علم نہیں ہوسکا۔
لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جو ان سب سے زیادہ قدیم ہے۔ حضرت انسان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔
زمین پر بسنے والی پہلی ذی شعور مخلوق جنات تھی جو انسان سے دو ہزار سال قبل بسائی گئی۔ باوا آدم کی تخلیق سے پہلے دنیا پر جنات کی آبادی تھی۔ یوں ’’جنات‘‘ حضرت انسان سے بھی پرانی مخلوق ہے۔ لیکن بیت اﷲ اور اس کے اردگرد زمین ان سب چیزوں سے زیادہ قدیم تاریخ رکھتی ہے۔
دنیا کے نقشے پر آج جہاں ’’بیت اﷲ‘‘ قائم ہے ہزاروں سال بیتے جب اسی جگہ کو پھیلا کر یہ عالم رنگ و بو وجود پذیر ہوا۔ یہ جگہ دنیا ہستی کی ’’ابتدا‘‘ ہے اور عالم فانی کی ’’انتہا‘‘ بھی ۔ زمین کی ابتدا جیسے اس جگہ سے ہوئی اس کی اور اس پر بسنے والی مخلوقات کی بقا اور وجود بھی اسی ’’بیت اﷲ‘‘ سے وابستہ ہے۔ ’’بیت اﷲ شریف‘‘ دنیا کی بقا اور یہاں رہنے والی مخلوقات کی حیات کی ’’علامت‘‘ ہے۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’یقینا وہ عمارت جو اﷲ کی عبادت کے لیے انسانوں کے واسطے تعمیر کی گئی وہ عمارت ہے جو مکہ شریف میں ہے (یعنی بیت اﷲ) ۔ (آل عمران: ۱۰۷)
’’بیت اﷲ‘‘ کی تعمیر و تجدید اور تزئین و آرائش مختلف ادوار میں کی جاتی رہی ہے۔
۱… تخلیق عالم سے دو ہزار سال پہلے خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے امرِ کن سے اسے پیدا کیا۔ (وھذا قول ابن عمر و مجاھد و قتادۃ والسدی)
۲… تخلیق آدم سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے اس کی تعمیر کی ۔ (رواہ الخازن)
۳… حضرت آدم علیہ السلام نے زمین پر آنے کے بعد بیت اﷲ کو پانچ پہاڑوں ، لبنان، سینا، زیتا، جودی اور حرا کے پتھروں سے بنایا۔
۴… حضرت شیث بن آدم علیہما السلام نے مٹی اور پتھروں سے اس کی تعمیر کی۔
۵… طوفان نوح میں غرقاب ہونے یا آسمان پر اٹھا لیے جانے کے ایک مدت بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند صالح اسماعیل علیہ السلام کی معاونت سے دوبارہ اس کی تعمیر کی۔ اس کی تعمیر کا حکم دینے والے خود اﷲ جل شانہ تھے۔ اور انجینئر جبرئیل علیہ السلام تھے۔ قرآن کی سورہ بقرہ میں اس تعمیر کا ذکر ہے۔ اس تعمیر اور بعثت نبوی میں تین ہزار سال کا فاصلہ ہے۔
۶… اس کے بعدقوم عمالقہ نے اس کی تعمیر کی۔
۷… پھر حضور نبی اکرم A کے پانچویں پشت کے دادا ’’زید قصی‘‘ نے اس کی تعمیر کی۔
۹… نویں تعمیر کا شرف قریش مکہ کو حاصل ہوا۔ اس وقت حضور Aکی عمر مبارک ۲۵ یا ۳۵ سال تھی۔
۱۰… یزید کی امارت میں ’’حصین بن نمیر کندی‘‘ نے مکہ پر منجنیقوں سے آتشیں گولے پھینکے،جس کی وجہ سے بیت اﷲ کو کافی نقصان ہوا۔ یزید اس واقعے کے اگلے ماہ فوت ہوگیا۔ اس کی روانگی کے بعد ’’حضرت عبداﷲ بن زبیر ‘‘ نے اسی سن یعنی ۶۴ھ میں بیت اﷲ کو از سر نو تعمیر کی۔ تعمیر قریش میں حطیم کو چار دیواری میں لانا رہ گیا تھا، حضرت عبداﷲ بن زبیر نے حطیم کو بیت اﷲ کے اندر داخل کیا جو کہ منشاء نبوی کے عین مطابق تھا۔
۱۱… حضرت عبداﷲ ابن زبیری المناک شہادت کے بعد حجاج بن یوسف کے کہنے پر عبدالملک بن مروان نے ۷۳ھ میں دوبارہ قریش کے طرز تعمیر پر کردیا۔
۱۲… ۱۰۳۹ھ تک حجاج کی تعمیر چلی آتی رہی۔ اس سے قبل ۹۶۰ھ میں سلطان سلیمان نے چھت کی مرمت کروائی اور ۱۰۲۱ھ میں سلطان احمد نے چھت، میزاب رحمت اور دیوار کعبہ کی مرمت کروائی۔ ان کے علاوہ ولید بن عبدالملک، متوکل باﷲ نے بھی تزئین اور مرمت کرائی ہے۔ ۵۴۲ھ اور ۸۲۵ھ میں بھی ترمیم و تزئین کا ذکر ملتا ہے۔ یہ تمام ترمیمات محض ترمیم اور تزئین ہی کی حد میں آتی ہے۔ ۱۰۳۹ھ میں سلطان مراد خان کے دور میں ایسی طوفانی بارشیں اور عظٗم سیلاب آیا کہ قفل کعبہ سے بھی دو ہاتھ اوپر تک پانی بھر آیا اور دو دن کے بعد اچانک اکثر حصہ گر گیا، سلطان مراد نے ۱۰۴۰ھ میں تجدیدِ تعمیر کا شرف حاصل کیا۔
اس کے بعد سلطان عبدالحمید ثانی نے ۱۲۹۹ھ میں اندرون کعبہ کی اصلاح و ترمیم کی اور موجودہ دور میں شاہ فہد بن عبدالعزیز نے بھی بیت اﷲ، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی بڑی خدمت کی ہے۔ (تفصیل کے لیے اوجز المسالک : ج ۷/۱۱۹ تا ۱۴۷ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت)
Load/Hide Comments