بیع بالخیار کی صورت میں بیعانہ کی رقم ضبط کرنا جائز نہیں۔

فتویٰ نمبر:510

سوال:میں منصور احمد ولد فضل مبین احمد تارگٹی والے ایک کاروباری مسئلہ پر آپکی حتمی رائے جاننے کا خوہشمند ہوں ۔

میں چونکہ اہل ِ حدیث مسلک تعلق رکھتا ہوں اور یہ مسئلہ ایک اہلِ احناف اور تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے صاحب ، جناب عبد الستار صاحب سے پیش آیا ہے اسلئے قرآن و حدیث کی روشنی میں آپکی حتمی رائے کا طالب ہوں ۔

            واقعہ یو ں ہے کہ اخبار میں ایک فیکٹری اور اسکےمختلف قطعات کے بکنےکا اشتہار دیکھ کر میں فیکٹری واقع کورنگی انڈسٹریل ایریا پہنچ گیا ،وہاں جاکر معلوم ہواکہ یہ تو اپنے واقف اور دور کے عزیز ہیں ۔بہرحال ایک دن میٹنگ کا بھی طے ہوا اور میں اپنےشریک کار اعجاز  صاحب کے ساتھ عبد الستار صاحب کے دفتر میں بیٹھ کر سودا سمجھنے کی کوشش کی اسی میٹنگ کے دوران یہ بات سامنے آئے کہ

(۱) فیکٹری کے تمام کاغذات  حبیب بینک کے پاس رہن ہے ۔

(۲) ہم نے ۳۶ ماہ تک بینک کو ادائیگی کرنی ہوگی ۔

(۳) ہم ایک مشت ادائیگی عبد الستار صاحب کو بھی کریں گے ۔

(۴)  اس تمام عرصے میں عبد الستار صاحب بھی بینک کو ادائیگی کرینگے ۔

اسکے بعد جائیداد کےکاغذات بینک سے خلاصی حاصل کریں گے ۔

اس اثناء میں عصر کی نماز کا وقت ہوگیا ۔میں نے ان ہی کی فیکٹری میں تعمیر شدہ مسجد میں نمازِ عصر ان کےساتھ باجماعت اداکرنے کے بعد تھوڑی دیر آپس میں مشورہ کرنے کے بعد ان کے کمرے میں دوبارہ بیٹھ کر سودا تقریباً O.K کردیا۔اور ایک چیک 5 لاکھ روپے کا بیعانہ کے طور پر دیدیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں اب وکیل سے مشورہ کروں گا کہ یہ سودا جیسا میں سمجھا ہوں ویسا ہی ہے یا مختلف ہے ۔انھوں نےکہا کہ بھائی آپ اپنا اطمینان کر لیں ۔پھر عبدالستار صاحب نے کہا کہ 10 لاکھ روپے تو دیجئے میں نے کہا کہ ہم 25 بھی دے سکتے ہیں ۔ذرا سا صبر کیجئے اور ہم کو اطمینان کرلینے دیجئے ۔

اگلے ہی دن ان کے اسسٹنٹ کا فون میرے موبائل پر آیا کہ اپنا نام  والد کا نام  شناختی کارڈ نمبر وغیرہ وغیرہ لکھوا دیجئے  میں نے جواب دیا کہ بھائی ابھی تو آپ صر ف کچی رسید بناکر دیجئے ہم ابھی اطمینان کریں گے ۔

ان کا پلٹ کر فون آیا کہ انکی عبدالستار صاحب سے بات ہوگئی ہے انھوں نے کہا ہے کہ آپ کےروپے ہمارے پاس امانت ہیں اور آپ بے فکر رہئیے ۔ابھی پکی رسید بن جانے دیجئے ۔پھر میں نے تفصیلات لکھوادیں ۔دو دن کے بعد میرے شریک اعجاز صاحب بھی کوئی کاغذ ان کو پہنچانے گئے تو عبدالستار صاحب نے ان سے کہا کہ بھائی منصور سے کہئیے گا کہ ان کے روپے ہمارے پاس امانت ہیں اور بالکل فکر نہ کیجئے اور اپنا اطمینان کرلیں ۔

            بہرحال میں نے اپنے بڑوں سے مشورہ کیا تو اندازہ ہواکہ سودے کی نوعیت وہ نہیں ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو پھر میں نے ایک دن عبدالستار صاحب کے گھر جاکر کہا کہ بھائی ہم یہ سودا نہیں کررہے ہیں اور اٹھتے اٹھتے میں نے اپنے 5 لاکھ روپے کا تقاضہ بھی کیا ۔انھوں نے کہا کہ ہم دیکھیں گے۔پھر بعد میں تقاضوں کے بعد انھوں نے کہاکہ بھئ یہ روپے تو ضبط ہوگئےاور یہ کاروباری مسئلہ ہے شرعی طور پر آپ سودا مکمل کرنے کے پابند ہیں ۔پھر بعد کی ملاقات میں میرے شریک اعجاز صاحب کو بھی انھوں نے یہ عندیہ دیا کہ یہ روپےہمیں حلال نہیں لیکن وہ یہ روپے ادا بھی نہیں کررہے ۔

میرا سوال یہ ہیکہ :

۱) آیا یہ روپے ان کو رکھنے حلال ہیں ؟

۲) میرے بار بار تقاضہ کے بعد بھی  انکو روپے رکھنے اور ادائیگی سے انکار کرنے میں کوئی وعید ہےکہ نہیں ؟

 الجواب حامداً ومصلیاً

بر تقدیرِصدق ِ واقعہ صورت ِ مسؤلہ میں سائل نے جوخریداری کی ہے وہ حتمی نہیں تھی بلکہ اس میں اپنےلئے “حق ِ خیار “رکھاتھا اور فروخت کنندہ نےبھی بیعانہ کی رقم کو امانت سے تعبیر کرکے اس حق کو قبول کیا تھا البتہ اس خیار کی مدت متعین نہیں تھی۔اور خیارِ شرط کی مدت معلوم نہ ہونے کی صورت میں حضرات ِ فقہاء کرامؒ فرماتے ہیں کہ بیع فاسد ہوجاتی ہے(۱) ۔

            جیساکہ درِ مختار میں ہے:

  الدر المختار – (4 / 567)

(صح شرطه للمتبايعين ) معا ( ولأحدهما )…. ( ثلاثة أيام أو أقل ) وفسد عند إطلاق أو تأبيد ( لا أكثر ) فيفسد فلكل فسخه خلافا لهما

رد المحتار – (4 / 568)

فَعِنْدَهُمَا يَجُوزُ إذَا سَمَّى مُدَّةً مَعْلُومَةً فَتْحٌ.

لہذا فروخت کنندہ کو چاہئے کہ وہ اس بیعانہ کی رقم کو واپس کردے اس رقم کے واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینا یا اپنی ملک سمجھتے ہوئے اسے رکھ لینا جائز نہیں (۲)۔

            ارشاد ِ نبوی ﷺ ہے :

صحيح مسلم – عبد الباقي – (3 / 1197)

مطل الغني ظلم (ص:۱۸/۲ )

مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – بيروت – (2 / 165)

لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه(ص:۲۵۵ )

کسی آدمی کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں

التخريج

(۱)البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (6 / 4)

لَوْ أَطْلَقَ الْخِيَارَ فَسَدَ الْبَيْعُ

الاختيار لتعليل المختار – (1 / 14)

خيار الشرط جائز للمتبايعين ولأحدهما ثلاثة أيام فما دونها ولا يجوز أكثر من ذلك

(۲)التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد – (18 / 286)

مطل الغني ظلم لا يحل ما أبيح منه لغريمه من أخذ عوضه

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (4 / 61)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.

 

اپنا تبصرہ بھیجیں