فتویٰ نمبر:415
مودبانہ گزارش ہے کہ میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے ا س کو قرآن وحدیث کی روشنی میں فتویٰ فرمائیں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر کے انتقال کے بعد میرے سسر نے ایک مکان جس کا رقبہ تقریبا 100 گز ہے۔ اس میں کچھ حصہ مجھے دیا۔ جو اس وقت اس کی مالیت تقریبا 6 لاکھ تھی پورے مکان کی ۔ اور میرے جیٹھ نے یہ حصہ مجھ سے تقریبا 10000/مبلغ ایک لاکھ روپے میں لے لیا ۔ حالانکہ میں اس وقت میں بیچنا چاہتی تھی لیکن کسی گاہک کو وہ بیچنے نہیں دیتے تھے ۔ اس وقت میرے سسر زندہ تھے ۔
اب میرے سسر کا تقریبا دو سال ہوئے انتقال ہوگیا۔ میرے دو بچے ہیں میں ابھی بھی میرے شوہر کے حق میں ہوں ۔ میرے دو بچے ہیں ۔ انکی عمر 1ے7 اور 16 سال ہے ۔
جس وقت وہ مکان مجھ سے لیا ہے ۔ا س کو انہوں نے کرایہ پر دیا ہوا ہے ۔ اور وہ تقریبا چھ سال سے کرایہ پر دے رہے ہیں ۔
لہذا آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں فتویٰ دیں کہ وہ مکان جسکی مالیت آج 20 لاکھ روپے ہے۔ میرے بچوں کا حصہ ملے گا ۔ اور اگر ملے گا تو کس حساب سے ملے گا۔ کیونکہ میرے سسرال نے آج تک میری اور میرے بچوں کی کوئی کفالت نہیں کی۔
میری رہائش لیاری میں ہے اور مذکورہ مکان ملیر میں ہے ۔ اس لیے آپ فتویٰ دیدیں تو میں وہاں جاکر بات کرلوں ۔
وضاحت
1۔ سسر صاحب کے دو مکان تھے ۔ ایک مکان اپنے دو بیٹوں کو دیاتھا اور دوسرا ماکن اپنے تیسرے بیٹے اور مجھے دیاتھا آدھا آدھا ۔ میرے شوہر کے انتقال کے بعد ۔
2۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ مکان کی اصل قیمت چھ لاکھ روعپے ہے مجھے یہی بتایا گیا کہ اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے ۔
جواب: سوال اور اس کی وضاحت سے واقعہ کی یہ صورت سامنے آئی ہے کہ مذکورہ مکان کو سائلہ کے سسر نے اپنے ایک بیٹے اور سائلہ کو آدھا آدھا گفٹ کیاتھا۔سائلہ کے جیٹھ نے مکان کی قیمت کم بتا کر اصرار کرکے اس کا حصہ خرید لیا۔ اگرسائلہ مکان فروخت کرتے وقت ہی یہ معاملہ اٹھاتی تو اس کا جواب سائلہ کے حق میں جاتا۔ لیکن چونکہ سائلہ ایک طویل عرصہ تک خاموش رہی اورا ب اس مسئلہ پر آواز اٹھارہی ہے اس لیے شرعا اب سائلہ کا اس مکان پر کوئی حق نہیں رہا ۔ا لبتہ جیٹح نے سائلہ کے ساتھ جو دھوکہ کیا ہے اس پر اسے توبہ استغفار لازم ہے ۔ اخلاقی طور پر جیٹھ کو چاہیئے کہ وہ سائلہ کے حصے کا مکان مناسب قیمت پر اسے واپس کردے ۔