دوران سفر ظہر اور عصر کی نماز کو ملا کر پڑھنا

سوال: کیا دورانِ سفر (پکنک کا سفر تھا) ظہر اور عصر ملا کر پڑھ سکتے ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

فقہ حنفی کے مطابق سفر ہو یا حضر دو نمازوں کو کسی بھی وقت کہیں بھی بلا عذر یا عذر کی ساتھ ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ دو نمازوں (ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء) کو سخت ضرورت (جیسے سفر) کے وقت صورتاً جمع کرنے کی گنجائش موجود ہے، یعنی ظہر کی نماز کو اخیر وقت تک مؤخر کرکے پڑھا جائے اور پھر عصر کی نماز کو اوّل وقت میں ادا کرلیا جائے۔

========================

حوالہ جات:

1- عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد اتی بابا من ابواب الکبائر۔

ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں) جمع کیا، وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچا۔

(ترمذی شریف: 188)

2- عن عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ، قال: رایتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اعجلہ السیر فی السفر یؤخر صلاة المغرب حتى يجمع بينها و بين صلاة العشاء۔

ترجمہ:عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جانے کی جلدی ہوتی تو وہ مغرب کئ نماز کو موخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔

(صحیح مسلم: 1623)

3- عن انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ، قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخّر الظہر الی وقت العصر ثمَّ نزل فجمع بینھا فاِن زاغتِ الشمسُ قبل اَن یرتحل صلّی الظہرَ ثمَّ رکب۔

ترجمہ:

انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج کے زائل ہونے سے پہلے جب سفر کا ارادہ کرتے تو بہت کو عصر کے وقت تک مؤخر کردیتے پھر سواری سے اترتے پھر ان دونوں نمازوں کو جمع فرماتے اور اگر ان کے سفر سے پہلے ہی سورج زائل ہوچکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھتے پھر سوار ہوتے۔

(صحیح مسلم: 1624)

4- ولا یجوز عندنا بین صلو تین فی وقت واحد سوی الظہر والعصر بعرفة والمغرب والعشاء بمزدلفة وهو قول ابن مسعود وسعد بن ابي وقاص وابن عمر و النخعي وابن سيرين ومكحول وجابر بن زيد و عمرو بن دينار

(حلبي كبير: 546/545)

5- ولا جمع بین فرضین فی وقت بعذر سفر و مطر خلافا للشافعی، وما رواه محمول على الجمع فعلا، لا وقتا فان جمع فسد لو قدم الفرض على وقته وحرم لو عكس اي: اخّره عنه واِن صح بطريق القضاء الا لحاج بعرفة و مزدلفة

(فتاوى شاميه: 57/2)

6- دو نمازوں کو جمع کرنا ہمارے نزدیک جائز نہیں بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا لازم ہے، البتہ سفر کی ضرورت سے ایسا کیا جاسکتا ہے کہ پہلی نماز کو اس کے آخر وقت میں ادا کیا جائے اور پچھلی نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرلیا جائے، اس طرح دونوں نمازیں ادا تو ہوں گی اپنے اپنے وقت میں مگر صورتا جمع ہوجائیں گی۔ اور اگر پہلی نماز کو اتنا مؤخر کردیا کہ اس کا وقت نکل گیا تو نماز قضا ہوگئی اور اگر پچھلی نماز کو اس طرح مقدم کردیا کہ ابھی تک اس کا وقت ہی داخل نہیں ہوا تھا تو وہ نماز ادا ہی نہیں ہوگی اس کا دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل : 213,214/3)

واللہ اعلم بالصواب

11 جنوری 2021ء

8 جمادی الاخری 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں