ایصال ثواب کے کھانےکاحکم

سوال: ایصال ثواب کے کھانے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ مثلاً مجھے کہیں بلایا گیا ہے ایصال ثواب کے لیے قرآن پڑھنے کو یا ذکر کر نے کو. اب اس کے بعد کھانا دیا جاتا ہے۔ تو اس کا کیا حکم ہے۔؟ میں نے سنا ہے کہ ایصال ثواب کا کھانا کھانا جائز نھیں. لیکن میرے شوہر کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے اگر کہیں ایصال ثواب کے لیے تم نے قرآن پڑھا اور اور وہاں اب دوپھر کا یا کسی کھانے کا وقت ہو گیا ہے اور انہوں نے مہمان نوازی کے طور پہ کھانا کھلا دیا تا کیا ہو گیا اس میں کیا حرج ہے.

بس میں تو کنفیوز ہو گئی  ہوں کہ کیا کروں. رہنمائی فرمادیں۔

جواب:

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے عزیز و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنااور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، لیکن مروجہ طریقہ پر دن متعین کرکے اجتماعی قرآن خوانی کرنا ، جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا، اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے، نیز فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعت قرار دیا ہے۔ لہذا اس کھانے سے احتراز کیا جائے۔ ہاں! جو لوگ دور دراز سے جنازہ میں شرکت کے لیے آتے ہیں اور کسی وجہ سے واپس نہیں ہوسکتے اور اہلِ میت یا ان کے قریبی اعزہ ان کے لیے کھانے کا نظم کردیں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے اور ان کے لیے کھانے میں حرج نہیں۔

’’عن جرير بن عبد الله البجلي قال: كنا نرى الإجتماع إلى أهل الميت و صنعة الطعام من النياحة‘‘. (باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت و صنعة الطعام، ١/ ٥١٤)

شرح سنن ابن ماجہ میں ہے:

’’إن الناس يجتمعون عند أهل الميت فيبعث أقاربهم أطعمة، لاتخلو عن التكلف فيدخل بهذا السبب البدعة الشنيعة فيهم، وأما صنعة الطعام من أهل الميت إذا كان للفقراء فلا بأس به، لأن النبي صلي الله عليه وسلم قبل دعوة المرأة التي مات زوجها كما في سنن ابي داؤد، و أما للأغنياء و الأضياف فممنوع و مكروه؛ لحديث أحمد و ابن ماجة في الباب الآتي: كنا نرى الاجتماع و صنعة الطعام إلى أهل الميت من النياحة، أي نعد وزره كوزر النوح‘‘. (١/ ١١٦)

فتاوی شامیمیں ہے:

’’قَالَ: وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ، وَهِيَ بِدْعَةٌ مُسْتَقْبَحَةٌ، رَوَى الْإِمَامُ أَحْمَدُ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ، وَصُنْعَهُمْ الطَّعَامَ مِنْ النِّيَاحَةِ. وَيُسْتَحَبُّ لِجِيرَانِ أَهْلِ الْمَيِّتِ وَالْأَقْرِبَاءِ الْأَبَاعِدِ تَهْيِئَةُ طَعَامٍ لَهُمْ يُشْبِعُهُمْ يَوْمَهُمْ وَلَيْلَتَهُمْ؛ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اصْنَعُوا لآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ جَاءَ مَا يَشْغَلُهُمْ». حَسَّنَهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ‘‘. (٦/ ٦٦٥)

فالحاصل ان اتخاذالطعام عن قراء ة القرآن لاجل الاکل یکرہ(بزازیہ بہامش الہندیہ:4:81)

اپنا تبصرہ بھیجیں