سوال: فرض نمازوں کے متصل ہی اجتماعی حالت میں ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا سنت ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو آپ ﷺ تک جو سند چلتی جاتی ہے اس کو آپ حضرات تحریر فرمادیجئے۔
فتویٰ نمبر:86
جواب: فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اس طرح دعا مانگنا کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان ربط اور اجتماعیت رہے۔ احادیث اور فقہی عبارات سے صراحتاً ثابت ہے ۔
احادیث درج ذیل ہیں:
1)عن انس رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال: مامن عبد یبسط کفیہ فی دبر کل صلوۃ ، یقول :” اللھم الھی ،والہ ابراھیم ، و اسحاق،ویعقوب والہ جبرئیل ،ومیکائیل ،واسرافیل ! اسالک ان سےجیب دعوتی ،فانی مضطر ،وان تعصمنی فی دینی ،فانی مبتلی ، وتنالنی برحمتک ، فانی مذنب ، وتنفی عنی الفقر ،فانی مسکین ،”الاکان حقا علی اللہ ان لا یرد یدیہ خائبتین ۔” (کنز العمال :2/134 موسۃ الرسالۃ )
2) عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ان النبیﷺ رفع یدیہ بعد ماسلم ،وھو مستقبل القبلۃ ۔۔۔(تفسیر ابن کثیر :1/542 قدیمی)
3) عن محمد بن یحیی قال : رایت عبداللہ بن الزبیر ،ورای رجلاً رفعا یدیہ قبل ان یفرغ من صلاتہ ،فلما فرغ منھما، قال :”ان رسول اللہ ﷺ لم یکن یرفع یدیہ ۔ حتی یفرغ من صلاتہ ۔” ( مجمع الزوائد :10/ 169 دارالکتب العربی)
4) عن الاسود العامری عن ابیہ قال: صلیت مع رسول اللہ ﷺ الفجر ،فلما اسلم، انحرف ،ورفع یدیہ ،ودعاء۔” (امدادالفتاویٰ 1/561)
ان چار روایات کے عموم سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کی ترغیب دی ہے اور خود بھی ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی ہے ۔ چوتھی روایت میں صراحت سے فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر حضور کا دعا مانگنا مذکور ہے۔
ان احادیث سے اجتماعیت کا ثبوت اس طرح ہوتا ہے کہ جب حضور ﷺ ہاتھ اٹھاکر دعا فرماتے ہوں گے خصوصاًجہری دعا تو سوچنے کی بات ہے کہ کیا صحابہ حضور کی اقتدا کرتے ہوئے حضور کی دعا میں شریک نہ ہوتے ہوں گے ؟ اجتماعی اور ربط تو خود ہی پیدا ہوجاتا ہوگا۔
5) عن حبیب بن مسلمۃ الفھری قال للناس : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول :” لایجتمع ملا،فیدعو بعضھم ویؤمن سائرھم الا اجابھم اللہ ۔” ( مجمع الزوائد :10/170 باب التامین علی الدعاء )
6) عن کعب بن عجرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ :” احضروا المنبر ،فخضرنا،فلما ارتقی درجۃ ، قال :آمین ،فلما ارتقی الدرجۃ الثانیۃ، قال :آمین ،فلماا رتقی الدرجۃ الثالثۃ ، قال :آمین ،فلما نزل ، قلنا: یارسول اللہ ! لقد سمعنا منک الیوم شیئا ماکنا نسمعہ ؟ قال: ان جبرئیل علیہ السلام عرض لی ، فقال : بعد من ادرک رمضان فلم یغفرلہ قلت :آمین ،فلما رقیت الثانیۃ،قال : بعد من ادرک ابویہ الکبر او احدھما،فلم یدخلاہ الجنۃ ، قلت :آمین ۔” (الترغیب والترھیب :2/92،93 دارالکتب العلمیۃ )
7) قال یحیی بن سعید :سمعت انس بن مالک قال: اتی رجل اعرابی من اھل البدو والی رسول اللہ ﷺ یوم الجمعۃ ، فقال : یارسول اللہ !ھلکت الماشیۃ ، ھلکت الماشیۃ العیال،ھلک الناس ،فرفع رسول اللہ ﷺ یدیہ ،یدعو،ورفع الناس ایدیھم مع رسول اللہ ﷺ یدعون ۔۔۔۔ ۔۔(صحیح البخاری کتاب الاستسقاء :1/352 دارالکتب العلمیۃ)
ان روایات کے عموم سے دعا کرانے والے اور عام مجمعے کے درمیان اجتماعیت اور ربط صراحتاً ثابت ہوتا ہے۔
اور فقہی نصوص یہ ہیں :
1)فتاویٰ عالمگیر ی میں ہے :
“اذا دعا بالدعاء الماثور جھرا، ومعہ القوم ایضاً،لیتعلموا ادعاء لاباس بہ۔” (5/317 رشیدیہ)
2)المعیار المغرب میں ہے :
“الصڈواب جواز الدعاء بعد الصلاۃ علی الھیئۃ المعھودۃ اذا لم یعتقد کونہ من سنن الصلوۃ ۔۔وکذلک الاذکار بعدھا علی الھیئۃ المعھودۃ ۔” (1/281 وزارۃ الاوقاف سعودیہ )
3) مفتی عبدالرحٰم لاجپوری ” فتاویٰ رحیمیہ ” میں لکھتے ہیں ۔
” مسنون یہ ہے کہ جس طرح فرض نماز جماعت سے پڑھی ہے ،دعا بھی جماعت کے ساتھ کی جائے یعنی امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگیں ۔” (فتاویٰ رحیمیہ :1/215 دارالاشاعت طبع قدیم )
ان تمام عبارات سے فرض نماز کے متصل بعد امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھاکر ایک ساتھ دعا کرنا صراحتاً ثابت ہوتا ہے ۔
البتہ اس پر اس طرح اعتقادی التزام کہ تارک کو ہدف طعن وملامت بنایاجائے درست نہیں،بلکہ بدعت ہے۔ جن علاقوں میں اس کا ایسا التزام ہوتا ہو وہاں عقل سمجھ سے کام لے کر مسئلہ کی حقیقت بیان کردی جائے اور کچھ عرصہ کے لیے اجتماعی دعا چھوڑدی جائے تو اور بہتر ہے ۔