فاسد نمازوں کے فدیے کا حکم

:سوال
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
قضا نمازوں کا فدیہ دیا جاتا ہے یعنی وہ نمازیں جو ہم نے پڑھی نہ ہو ۔
1)معلوم یہ کرنا ہے کہ جو نمازیں پڑھی ہیں لیکن کسی وجہ سے فاسد ہوگئی ہوں مثلا
نماز شروع کرنے کے بعد ستر کا خیال نھیں کیا یا لیکوریا کے مسائل کا علم نھیں تھا یاعمل کثیر کر لیا ،لیکن مسئلہ معلوم نہ ہونے کیوجہ سے وہ ایسے ہی مکمل کی ان کا اعادہ نہیں کیا۔اس طرح فرائض بھی اور سنن اور نوافل بھی فاسد ہوئی ہوں گی ۔تو کیا ایسی نمازوں کا بھی فدیہ ہوگا؟
2)نیز فرائض کے قضا کا طریقہ تو پتا ہے ،سنن و نوافل کے قضا کا طریقہ بتا دیں۔

الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر کسی کو یہ یقین یاظن غالب ہو کہ مسائل سے بےخبری کی وجہ سے اس کی کئی نمازیں فاسد ہوئی ہوں گی تو ایسی صورت میں ایک محتاط اندازہ لگایا جائے کہ کتنی نمازیں فاسد ہوئی ہوں گی ،ان تمام نمازوں کی قضا کرنا شروع کر دیں اور ساتھ میں حساب رکھیں کہ کتنی نمازوں کی قضا ہو چکی ہیں اور کتنی باقی ہیں؟
اگر کوئی شخص زندگی میں ان تمام نمازوں کی قضا نہ کر سکا تو اتنی نمازوں کے فدیہ کی وصیت کر جائے۔
البتہ فدیہ صرف فرائض اور وتر کا دیا جاتا ہے ،سنن و نوافل جو فاسد ہوئی ہیں ان کے فدیہ کے متعلق فقہاء کی عبارات میں ہمیں کوئی تصریح نہیں ملی۔فقہاء کی عبارات کا اس سے خاموش ہونا اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ سنن و نوافل کا فدیہ مشروع نہیں ہے بالخصوص جبکہ مفہوم مخالف فقہی عبارات میں معتبر ہے۔

2) ان کے قضا کی نیت اس طرح کریں کہ مثلا :میں دو/چار رکعات اول قضا نماز جو میرے ذمہ لازم ہے کی نیت کرتا/ کرتی ہوں۔ یا آخری وہ نماز جو قضا ہوگئی کی نیت کرتا/کرتی ہوں۔

=================
ما ثبت بيقين لا يرتفع الا بيقين. والمراد به غالب الظن, ولذا قال في الملتقط: ولو لم يفته من الصلاه شيئ و احب ان يقضي صلاة عمره منذ أدرك،لا يستحب لذلك إلا اذا كان اكبر ظنه فسادها بسلب الطهاره او ترك الشرط،فحینئذ يقضى ما غلب على ظنه،ومازاد عليه يكره لورود النهي عنه. (الاشباه والنظائر: ٦٣)

واللہ اعلم باالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں