غسل کاطریقہ

فتویٰ نمبر:1094

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

رہنما ئی فرمادیجئے۔۔کسی نے کہا کہ حیض سے پاکی کے بعد جب غسل کرنے سے پہلے جو استنجاء کرتے ھیں اس میں فرج میں انگلی داخل کر کے صاف کرنا ضروری ھے تاکہ گند باہر نکل جائے اور یہ بھی کہ غسل میں کلمہ پڑھتے ھوئے جسم کو ملنا ہے تاکہ جسم کی گندگی نکل جاٰئے یہ بات کیو ٹیوی پہ مفتی اکمل صاحب نے کہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے انکو سمجھایاہے پر وہ حکم کے درجے پہ اسکو مان رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔کیا یہ صحیح ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب

وعلیکم اسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! 

فرض غسل میں عورت پر صرف فرج خارج کا دھونا فرض ہے اس کو دھوئے بغیر غسل درست نہیں ہوگا البتہ فرج داخل میں انگلی داخل کرنا ضروری نہیں ، کیونکہ انسان داخلی نجاست کو صاف کرنے کا مکلف نہیں ۔

۲ غسل میں جسم ملتے ہوئے کلمہ پڑھنا یا پانی پر کلمہ پڑھ کر دم کرنا شریعت سے ثابت نہیں، حیض سے پاکی مسنون غسل کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے ، کلمہ پڑھنا لازم نہیں کیونکہ حیض سے عورت اسلام سے خارج نہیں ہوتی کہ کلمہ پڑھنے سے وہ پاک ہو گی۔

یہ باتیں بے اصل ہیں دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں چہ جائیکہ فرض واجب سنت یا مستحب کے درجے میں مانی جائے بلکہ اگر اس کو کوئی فرض یا واجب کے درجے میں مانے گا تو یہ بدعت میں شمار ہوگا۔

لمافی الھندیۃ(۱۴/۱): ویجب علی المرأۃ غسل فرجھا الخارج فی الجنابۃ والحیض والنفاس… لاتدخل المرأۃ اصبعھا فی فرجھا عند الغسل۔

وفی الدر المختار مع تنویر الابصار(۱۵۲/۱): (ویجب) ای یفرض(غسل) کل مایمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن و(سرۃ وشارب وحاجب۔۔۔۔۔۔ وفرج خارج) لانہ کالفم لاداخل لأنہ باطن۔ ولاتدخل اصبعھا فی قبلھا بہ یفتی۔

وفی الشامیۃ تحتہ:(قولہ لاداخل) ای لایجب غسل فرج داخل (قولہ ولاتدخل اصبعھا) ای لایجب ذلک کما فی الشرنبلالیۃ… لایجب ادخالھا الأصبع فی قبلھا وبہ یفتی

قال في التنوير ويجب غسل سرة وشارب وحاجب ولحية وفرج خارج ، وفي الشرح لأنه كالفم لا داخل لأنه باطن ( رد المحتار ص 141 ج۱)

(۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : الفصل الأول في فرائضہ وہي ثلاثۃ : المضمضۃ والاستنشاق وغسل جمیع البدن علی ما في المتون ۔۔۔۔۔۔۔۔ یسن أن یبدأ بالنیۃ بقلبہ ویقول بلسانہ نویت الغسل لرفع الجنابۃ أو للجنابۃ ثم یسمي اللہ تعالی عند غسل الیدین ثم یستنجي ۔ کذا في الجوہرۃ النیرۃ ۔ (۱/۱۳، ۱۴، کتاب الطہارۃ ، الباب الثاني في الغسل ، الفصل الأول في فرائضہ) (فتاویٰ دار العلوم دیوبند، رقم الفتویٰ: ۴۱۶۱۵)

(۲) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت : قال رسول اللہ ﷺ : ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردّ ‘‘ ۔ (۱/۳۷۱ ، کتاب الصلح ، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود ، الرقم :۲۶۹۷ ، صحیح مسلم :۲/۷۷)

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

بنت عبدالباطن عفی عنھا 

۱۹ رجب ۱۴۳۹ ھ

۶ اپریل ۲۰۱۸ ع

اپنا تبصرہ بھیجیں