بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم۔۔۔ امّا بعد!
دو مثالیں:
* ایک شخص فجر کے فرض دو کی بجائے چار پڑھتا ہے۔ رمضان المبارک کے 30 کے بجائے 40 روزے رکھتا ہے۔ مکہ مکرمہ جا کر حج کرنے کی بجائے اپنے علاقے میں کعبہ کے نام سے ایک عمارت بنا کر اسی کا حج کرتا ہے اور ان سب باتوں کو وہ اسلام اور دین کہتا ہے۔ کیا کوئی بھی اس کے اس دعویٰ کو تسلیم کرے گا؟ نہیں! ہرگز نہیں۔
* ایک شخص آپ کا ہر وقت کا ہم نشین ہے۔ ہر وقت وہ آپ کے ساتھ رہتا ، اٹھتا بیٹھتا ہے۔ آپ کی ہر ادا اور عادت و اطوار کا اسے بخوبی علم ہے اور ہر وقت کا ساتھی ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی طبیعت، مزاج اور قول و فعل کی گہرائی سے واقف ہے۔ آپ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ آپ کے دنیا سے جانے کے بعد دو افراد آپ کے حالات زندگی سے بحث کرتے ہیں ایک وہ جو آپ کا ہمیشہ کا ہم نشین اور ہمراز اور دست راست تھا۔ دوسرا وہ جو آپ کے انتقال کے صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ اب آپ بتائیے! آپ کی طبیعت، عادات اور معمولات کو ان دونوں میں سے کون صحیح صحیح بیان کرسکتا ہے۔ آپ کے مختلف اقوال و افعال کی درست تشریح ان دونوں میں سے کون کرسکتا ہے؟ یقیناًوہ شخص جو آپ کا ہمیشہ کا ساتھ اور سفر و حضر کا رفیق رہا۔ جبکہ دوسرا شخص جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ وہ قیاس آرائیاں کرکے آپ کی زندگی کے بہت سے گوشوں کو مسخ کرڈالے گا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
تین اُصول:
ان دو مثالوں سے آپ کو دین کی چند اہم باتیں سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
1۔۔۔ جس طرح فجر کے فرض دو کی بجائے زیادہ مثلاً چار پڑھنا ثواب اور دین نہیں بلکہ گمراہی اور جہالت ہے اسی طرح دین میں اپنی طرف سے کسی بھی قسم کی زیادتی اور اضافہ دین نہیں، بلکہ سراسر جہالت اور گمراہی ہے۔ جو روزہ اور نماز بلکہ جو بھی نئی عبادت دین میں مستند طریقے سے وجود نہیں رکھتی اس کو دین سمجھ کر اور ثواب سمجھ کر کرنا گمراہی ہوگا۔
2۔۔۔ اسلام اور دین کو اور قرآن و سنت کو جتنا حضور اکرم ﷺ کے صحبت یافتہ اشخاص اور آپ کے رفقاء سمجھ سکتے ہیں اتنا صدیوں بعد پیدا ہونے والے افراد نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کے مختلف اقوال و افعال اور زندگی کے مختلف گوشوں کے حوالے سے صحابہ کرام اور صحابہ کرام کے بعد تابعین اور تبع تابعین جو مستند تشریح کر سکتے ہیں بعد کے زمانے کے لوگ نہیں کرسکتے۔ اسلام کی نبض شناسی ان حضرات سے زیادہ بہتر کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔
3۔۔۔ اگر دین اور اسلام کے نام پر ہر چند سالوں میں نئے نئے اضافے ہوتے رہے تو اصل اور نقل میں امتیاز نہیں رہ پائے گا۔ کھرے اور کھوٹے میں تمیز باقی نہیں رہ پائے گی اور اسلام کا سادہ اور روشن طریقہ بدعات کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ جائے گا۔ دین کی اصل شناخت مسخ ہو کر رہ جائے گی اور چند صدیوں میں اسلام اسی طرح محرف اور تبدیل ہوجائے گا جس طرح یہودی اور عیسائی مذہب چند ہی صدیوں میں مسخ ہوکر رہ گئے تھے۔
انہیں خطرات کی روک تھام کے لیے ذخیرہ احادیث میں ہمیں ایسے بے شمار روشن اور بیش بہا ارشادات و فرامین ملتے ہیں جو خالص دین پر جمے رہنے کی تلقین کرتے اور بدعات سے بچنے کی بھرپور تاکید کرتے ہیں تاکہ امت ان کو اپنا مشعل راہ بنائے! چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں:
* ’’جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : ۲/۲۵)
* کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق ) آگے نقل کردے۔ (خصوصاً دین کی باتوں کو) (مشکوٰۃ : ص ۲۸)
* میرے بعد میری سنت اور خلفائے راشدین کے طریقوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔۔۔ اور دین کے نام پر ایجاد کی جانے والی نئی نئی باتوں سے بچنا۔‘‘ (مشکوٰۃ : ص ۳۰)
* دع ما یریبک الیٰ مالا یریبک۔ (مشکوٰۃ، مسند احمد، ترمذی)
جس چیز کے اندر شک ہو کہ یہ دین ہے یا نہیں اسے چھوڑ دو اور ایسی چیز اختیار کرو جس میں کوئی شک نہ ہو۔ اسی وجہ سے تمام علماء کا متفقہ اصول ہے : ما تردد بین البدعۃ و السنۃ یترک
(ھندیہ: ۱/۱۷۹، البحرالرائق : ۳/۳۰، شامی : ۱/۶۰۰، فتح القدیر: ۴/۴۵۵، سجود السہو)
یعنی ہر ایسا عمل اور عقیدہ جس کے ثابت ہونے میں دل کھٹکتا ہو اسے سرے سے چھوڑ دیا جائے اور حتمی، یقینی اور احتیاط والی بات کو لے لیا جائے۔
عبرت انگیز واقعہ:
* ایک شخص بہت عبادت گزار اور دین دار تھا۔ شیطان نے اسے بہکایا کہ تم عبادت کر رہے ہو تم سے پہلے بھی سارے لوگ یہی عبادت کیا کرتے تھے اور سارا زمانہ آج بھی یہی عبادت کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں تمہاری کوئی قدر و منزلت پیدا نہیں ہوگی۔ تمہیں چاہیے کہ تم کوئی نئی بات ایجاد کرو اور اسے لوگوں میں پھیلاؤ! پھر دیکھنا تمہاری کیسی شہرت ہوگی۔ ہر جگہ تمہارا چرچا ہوجائے گا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کی وہ نئی باتیں لوگوں میں پھیل گئیں اور ایک زمانہ اس کی تقلید کرنے لگا۔ اب اسے بڑی ندامت ہوئی کہ میں نے دین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اس نے وہ ملک چھوڑ دیا اور گوشہ نشین ہوکر عبادتوں میں مشغول ہوگیا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسے جواب ملا: ’’اگر گناہ صرف تیرا ہوتا تو میں اسے معاف کردیتا، لیکن تو نے تو عام لوگوں کو بگاڑ دیا اور انہیں گمراہ کردیا جس پر چلتے چلتے وہ مر گئے ان کا بوجھ تجھ سے کیسے ہٹے گا۔ میں تیری توبہ قبول نہیں کروں گا۔‘‘
(تفسیر ابنِ کثیر)
ماہِ رجب شروع ہوچکا ہے اور اس کے متصل بعد ماہ شعبان طلوع ہونے والا ہے۔ موقع ہے کہ ان مبارک مہینوں کے حوالے سے اسلام کے سادہ اور اصلی نقوش پیش کرکے اس کے مقابلے میں معاشرہ میں پرورش پانے والی غیر اسلامی اور نو ایجاد باتوں کو عوام کے سامنے لایا جائے! تاکہ دین کے اصل حقائق پر عمل اور نئی باتوں سے گریز کیا جا سکے!! واﷲ المستعان
پہلا حصہ
ماہ رجب۔۔۔ اصل حقائق
ماہِ رجب کے حوالے سے قرآن و سنت سے صرف یہ باتیں ثابت ہیں:
۱۔ ماہِ رجب چار محترم مہینوں میں سے ایک ہے۔ رجب، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم۔ ان چار مہینوں کی عظمت و حرمت ابتدائے آفرینش سے ہے۔ اسلام میں بھی ان کی حرمت باقی رکھی گئی ہے۔ (سورۃ توبہ: آیت ۳۶)
۲۔ رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو نبی کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان (مشکوٰۃ شریف: ص ۱۲۱)
اے اﷲ! رجب اور شعبان کے مہینوں کو ہمارے لیے با برکت فرما اور ماہ رمضان کی مبارک ساعتیں ہمیں نصیب فرما!
۳.۔ تفسیر طبری میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے سند حسن کے ساتھ منقول ہے کہ رجب کے مہینے میں نیک عمل کا ثواب اور گناہ کرنے کا وبال ان دونوں چیزوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے
۔
ماہ رجب۔۔۔بے بنیاد باتیں
صلوۃ الرغائب:
بعض لوگ ماہ رجب کی پہلی شب جمعہ میں صلوۃ الرغائب کے نام سے ایک خاص نماز پڑھتے ہیں۔ علامہ شامیؒ اور دیگر علماء و محدثین نے تصریح کی ہے کہ صلوۃ الرغائب کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں۔ یہ بدعت اور مکروہ ہے۔ (شامی: ۱/ ۵۰۷رشیدیہ، موضوعات کبری: ص ۳۲۸ حدیث نمبر ۱۲۴۵)
تبارک کی روٹیاں:
ماہ رجب میں کچھ لوگ جمعہ کے دن میٹھی روٹیاں بناتے ہیں اور ان پر اکتالیس مرتبہ سورۃ الملک پڑھواتے ہیں۔ اس کو میت کی جانب سے صدقہ و خیرات کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس رسم کو ثواب اور متبرک سمجھ کر کرنا جہالت ہے۔ سورۃ الملک پڑھنا بذات خود ثواب کا کام ہے لیکن کسی خاص دن میں اس کا اس طرح اہتمام ثابت نہیں۔
۲۲رجب کے کونڈے:
عوام میں مشہور ہے کہ 22 رجب کے کونڈے حضرت جعفر صادق رحمہ اﷲ کی فاتحہ کا کھانا ہے اور اس دن حضرتؒ نے اپنی فاتحہ منانے کا حکم دیا ہے تاریخ کے اعتبار سے یہ خیال نہایت فاش غلطی ہے کیونکہ اسلامی تاریخ میں 22 رجب کے دن حضرت جعفر صادقؒ کی ولادت یا وفات ثابت نہیں اور نہ ہی حضرتؒ نے کسی خاص دن اپنی فاتحہ منانے کا حکم دیا ہے۔
اہل سنت کو اس رسم سے بچنا کئی وجوہات کی بناء بہت ضروری ہے:
۱۔ یہ رسم کسی شرعی اصل سے ثابت نہیں۔ حضرت جعفر صادقؒ کی طرف اس کی نسبت جھوٹی ہے۔
۲۔ چونکہ یہ رسم صحابہ دشمن عناصر نے ایک صحابی رسولؓ کی وفات کی خوشی میں ایجاد کی ہے اس لیے اس رسم کوادا کرنا دشمنان صحابہ کے ساتھ تعاون اور نا دانستہ ان کا آلہ کار بننا ہے۔
۳۔ ایصال ثواب کرنا باعث ثواب عمل ہے بشرطیکہ اس کے لیے اجرت نہ لی جائے۔ اجتماع اور معین تاریخ کا اہتمام اور کھانے کے خاص آئٹم کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ جبکہ کونڈوں کی اس رسم میں یہ سب خرابیاں موجود ہیں۔ اس لیے یہ غیر لازم کو لازم سمجھنے وجہ سے بدعت اور ناجائز ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود اگر کوئی شخص ۲۲رجب کے دن کونڈے بنادے تو کونڈے کھانے کا حکم کونڈے بنوانے والے کی نیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ اگر بنوانے والے کی نیت صرف ایصال ثواب ہو تو کونڈے حلال ہیں۔ فقراء اور محتاجوں کو کھلا دیے جائیں۔ صدقہ فطر کا نصاب رکھنے والوں کے لیے کھانا مکروہ تنزیہی ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ: ص۲۵۲)
اگر بنوانے والے کی نیت حضرت جعفر صادقؒ کی خوشنودی اور ان کا قرب حاصل کرنا ہو تو ایسے کونڈے ما اہل بہ لغیراﷲ میں داخل ہونے کی بناء پر حرام ہیں۔ (امداد الفتاویٰ : ۵/۲۶۰،۲۶۱)
رجب کے روزے:
کچھ لوگ رجب کے روزوں کی فضلیت پر مشتمل احادیث عوام میں پھیلا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ماہ رجب میں خاص نماز اور روزہ رکھنے کے حوالے سے بیہقی، طبرانی وغیرہ میں احادیث موجود تو ہیں۔ لیکن یہ احادیث سند کے اعتبار سے کس درجہ کی ہیں؟ اور علم حدیث کے قواعد کی رو سے ان کو عوام میں مشہور کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ان باتوں سے شاید لوگ لا علم ہیں۔ حافظ الدنیا حافظ ابن حجر، حافظ ابو اسماعیل ہروی،حافظ ابن رجب حنبلی، علامہ ابن القیم جوزی اور دیگر کئی معتبر مستند اور حدیث کے نبض شناس محدثین نے ان احادیث کو ناقابل اعتبار مانا ہے۔ ابن القیم نے لکھا ہے کہ رجب کے روزوں کی فضیلت والی احادیث من گھڑت ہیں ۔خود امام بیہقی جنہوں نے یہ احادیث نقل کی ہیں، ان احادیث پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں:’’یہ تمام احادیث منکر ہیں۔ ان کے ناقل بہت سے مجہول راوی ہیں اورمیں اللہ کی بارگاہ میں ان سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں‘‘۔
(شعب الایمان للبیہقی:۳/۳۶۹ دارالکتب العلمیہ بیروت)
دوسری طرف ان احادیث کے مقابلے میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت منقول ہے: ’’حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رجب میں لوگوں کو روزہ رکھنے پر مارا کرتے تھے اور ہاتھ پکڑ کر ان کو کھانا کھانے پر مجبور کرتے تھے اورفرماتے کہ لوگ جہالت کے دور میں اس ماہ کی تعظیم کرتے تھے۔‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۶/۳۳۴فی صوم رجب ماجا ء فیہ ،حدیث نمبر: ۹۸۵۱، کتاب الصیام)
ظاہر ہے کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے زیادہ دین کو کوئی قریب سے نہیں سمجھ سکتا جب وہ رجب میں روزہ رکھنے سے منع کر رہے ہیں تو یقیناًوہ اس کی حقیقت سے مکمل واقفیت کی وجہ سے ہی منع کر رہے ہیں۔ شاید رجب کے روزوں کی فضیلت منسوخ ہوگئی ہو اس لیے یا پھر کسی اور غلط عقیدے کی روک تھام کے لیے بہرحال اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رجب کے مہینے میں روزے رکھنے پر خصوصی فضیلت کا عقیدہ درست نہیں۔یہی سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔
سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث سے بھی سید نا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے:
ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن صیام رجب
(سنن ابن ماجہ ص۱۲۵، باب صیام اشھر الحرم: حدیث نمبر ۱۷۴۳)
یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ماہ رجب کے روزوں سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی رجب میں روزے رکھنے اور اس کی فضیلت سمجھنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:۶/۳۳۵، حدیث ۹۸۵۴)
عبادت کے لیے مسجد میں خصوصی اجتماع:
ستائیس رجب کی رات میں عبادت کے لیے مسجد میں خصوصی اجتماع اور وعظ و نصیحت کی مجلسیں درست نہیں۔چنانچہ مفتی بغدادعلامہ آلوسیؒ نے تصریح کی ہے کہ جس رات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے وہ شب یقیناًتمام راتوں سے نہایت فضیلت والی رات تھی لیکن اس میں اور دوسری فضیلت والی راتوں میں یہ فرق ہے کہ شب معراج میں کسی قسم کی کوئی عبادت مشروع اور ثابت نہیں۔ اس میں عبادت سے متعلق ایک حدیث ہے جسے محدثین نے من گھڑت اور خودساختہ قرار دیا ہے۔ (روح المعانی: ۱۵/۱۱رشیدیہ)
نوافل کی جماعت:
فقہ حنفی کی رو سے نوافل کے لیے تداعی (یعنی اہتمام کرکے لوگوں کا اجتماع بنانا ) مکروہ ہے چنانچہ تہجد، صلوۃ التسبیح وغیرہ کی جماعت فقہ حنفی کی رو سے اسی لیے مکروہ ہے۔
چراغاں کرنا:
مساجد میں نمازیوں کی ضرورت سے زیادہ روشنی، اسراف اور حرام ہے اس رات چراغاں کرنا نمازیوں کی ضرورت سے زائد ہے اس لیے یہ بھی اس حکم میں داخل ہے اور جائز نہیں۔ واﷲ اعلم
دوسرا حصہ
ماہِ شعبان ۔۔۔ اصل حقائق
شعبان کا لفظ عربی گرامر میں ’’شعب‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی ’’شاخ‘‘ کے ہیں اس مہینے میں خیرو برکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں اس لیے اس کو شعبان کہتے ہیں احادیث مبارکہ میں شعبان کے یہ فضائل وارد ہوئے ہیں:
شعبان کے فضائل
* حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ’’آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپ (تقریباً ) پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے اور فرماتے ’’نیک عمل اتنا ہی کیا کرو جتنے کی تم کو طاقت ہے کیونکہ اﷲ ثواب دینے سے تھکے گا نہیں تم ہی تھک جاؤ گے۔‘‘ (بخاری : ۲/۶۹۵)
* حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا فرماتے ہیں : آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں کثرت سے روزے نہیں رکھا کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس مہینے میں آئندہ سال کی اموات کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ اب ہوتا یوں ہے کہ ایک شخص شادیوں کی تیاریوں میں مگن ہوتا ہے حالانکہ اس کی موت کا فیصلہ لکھا جا چکا ہوتا ہے، ایک شخص سفر حج کی تیاریوں میں مشغول ہوتا ہے حالانکہ اس کا اندراج مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ (درمنثور: ۶/۲۲ بحوالہ ابن مردویہ، ابن عساکر)
شب برات کے معنی:
شب کے معنی ہیں رات، برات چھٹکارے اور نجات کو کہتے ہیں اس رات چونکہ مسلمانوں کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور گناہ گاروں کو پروانہ نجات ملتا ہے اس لیے اسے لوگ شب برات کہتے ہیں ویسے کسی مستند روایت سے یہ نام ثابت نہیں۔
شب برات کے فضائل:
شب برات کی فضیلت میں سترہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم سے روایات منقول ہیں ان میں سے چند روایات درج ذیل ہیں:
* حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بستر پر موجود نہ پایا تو آپ کی جستجو میں نکل کھڑی ہوئی دیکھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بقیع کے قبرستان میں کھڑے آسمان کی طرف سر اٹھائے مشغول دعا ہیں مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا : ’’کیا آپ کو یہ خوف دامن گیر ہوگیا تھا کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آپ پر ظلم فرمائیں گے؟ میں نے کہا : ایسی بات نہیں! دراصل میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ آپ میری باری میں کسی اور زوجہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اﷲ جل شانہ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر خصوصی نزول فرماتے ہیں اور اپنی بے پایاں رحمت سے بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں مسلمانوں کی عام معافی فرماتے ہیں۔‘‘ (ترمذی: ۳/۱۶ ادارالفکر بیروت، در منثور : ۶/۲۶، ۲۷ بحوالہ ترمذی، ابن ماجہ)
* حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ مخلوقات کے تمام فیصلے نصف شعبان کی رات (لوح محفوظ سے نقل کرکے رجسٹروں وغیرہ میں) لکھ لیے جاتے ہیں۔
(روح المعانی: ۱۳/۱۱۲)
پندرہشعبان۔۔۔ کرنے کے کام
قرآن کریم اور احادیث طیبہ سے شب برات کے یہ اعمال اخذ ہوتے ہیں:
شب بیداری:
اکثر علماء فقھاء اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات فضیلت والی رات ہے اور اس میں عبادت باعث خیر و برکت ہے۔
قبرستان جانا:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پندرہ شعبان کی رات کو خلاف معمول زندگی میں صرف ایک بار تشریف لے گئے۔ ہر سال شب برات کو قبرستان جانا آپ کا معمول نہ تھا۔ اس لیے کوئی مسلمان اگر زندگی میں ایک بار یا کبھی کبھار اس حدیث پر عمل کر لے تو کافی ہے۔ اس کو ہر سال لازم سمجھ کر کرنا، دین میں اضافہ کرنا ہے۔
پندرہ شعبان کاروزہ:
پندرہ شعبان کے دن روزہ رکھنے کا ایک ضعیف حدیث میں ذکر ملتا ہے:
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جب شعبان کی رات آئے تو اس رات کو عبادت اور قیام میں گزارواور اس کے دن میں روزہ رکھو۔۔۔‘‘
(روح المعانی: ۳/ ۱۱۱ بحوالہ بن ماجہ بیہقی)
مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مفتی محمد شفیع، مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہم اﷲ کی تصریحات کے مطابق اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔
پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا بہترنہیں
:
ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے: ’’نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو۔‘‘
(ترمذی حدیث: ۷۱۷ درجہ حسن صحیح، راوی ابوہریرہ)
جبکہ بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نصب شعبان کے بعد بھی روزہ رکھتے تھے۔ علمائے کرام نے اس تضاد کو اس طرح دور کیا ہے کہ نصف شعبان کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا روزہ رکھنا ذاتی خصوصیت ہے جبکہ امت میں جس کی ان دنوں میں روزہ رکھنے کی عادت نہ ہو اس کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ اس کے بعد روزہ نہ رکھے۔
بے بنیاد اور خلاف سنت باتیں:
آتش بازی:
آتش بازی اور بم پھوڑنا عبادت میں مشغول لوگوں کی عبادت میں دخل اندازی، اہل محلہ اور مریضوں کو ایذاء پہنچانے، اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے اور اس جیسے کئی گناہوں کا مجموعہ ہے اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
مسجدوں میں اجتماع کا اہتمام:
مبارک راتوں میں عبادت کا اہتمام اپنے گھروں میں کرنا چاہیے۔ یہی سنت طریقہ ہے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ مبارکہ میں ہی اس رات کی عبادت کی تھی۔ مسجد میں آپ تشریف نہیں لے گئے تھے۔
چراغاں کرنا:
اہل سنت علماء نے اس رات چراغاں کرنے کو ناجائز اور خلاف سنت قرار دیا ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ چراغاں کرنے کی بنیاد مسلمانوں میں، قوم برامکہ نے ڈالی جو ایک آتش پرست قوم تھی اور آتش پرستی سے اسلام میں داخل ہوئی تھی۔
ایصال ثواب:
اس رات ایصال ثواب کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں، اسی طرح اس رات میں اہتمام سے حلوہ پکانا اور بی بی عائشہ کی روٹیاں بنانا، یہ سب باتیں بھی بے سند ہیں۔
نوافل کی جماعت:
عورتوں کا گھروں میں صلوۃ التسبیح کی جماعت کرانا، مردوں کا مساجد میں صلوۃ التسبیح کی جماعت میں شریک ہونا درست نہیں۔ کیونکہ عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا چاہے کوئی سی بھی نماز ہو درست نہیں۔ بالخصوص نوافل کی جماعت کہ وہ تو مردوں کے لیے بھی مکروہ ہے۔ جیسا کہ پیچھے گزرا ہے۔
قبروں پر پھول ڈالنا:
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اﷲ علیہ نے قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کو سنت کی ضد قرار دیا ہے۔