حق تلفی

فتویٰ نمبر:528

سوال: دو لوگوں کے درمیان کاروباری شراکت ختم ہوئی اب ایک شریک نے دوسرے کے ساتھ تقسیم میں حق تلفی کی اس کے بارے میں بتادیں ؟

جواب:کسی کے حق پر ناجائز قبضہ کرنے والے شخص کے بارے میں قرآن و حدیث میں شدید وعیدیں آئی ہیں،جیساکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ[النساء: 29]

’’ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ اِلا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو(تو وہ جائز ہے) ۔‘‘

اورصحیح بخاری میں حضرت سعید بن زیدؓفرماتے ہیں کہ:

أن سعيد بن زيد رضي الله عنه قال سمعت رسول الله يقول من ظلم من الأرض شيئا طوقه من سبع أرضين(صحيح البخاري :1 / 290)

’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے کسی کی ناحق زمین لی تووہ زمین گلے کا طوق بناکراسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔‘‘

اورایک حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة

’’جس نے (دنیا میں ) اپنے وارث کو میراث سے محروم کیا تواللہ تعالیٰ (آخرت میں ) اس کا جنت سے حصہ ختم کر دیں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه(مسند أحمد :34 / 299)

’’آگاہ رہو،تم ظلم نہ کرو!(یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا) کسی کا مال اس کی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔‘‘

علامہ ابن عبد البر ؒ اسے امت کا اجماعی مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : 

قال أبو عمر قد ذكرنا أن الأصل المجتمع عليه أنه لا يحل مال امرئ مسلم 

إلا عن طيب نفس(الاستذکار:۴؍۸۸)

لہٰذا جس نے تقسیم میں حق تلفی کی ہے اس پرلازم ہے کہ اپنے شریک کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ صدق دل سے توبہ و استغفار کرے ،ورنہ سخت گناہگار ہوگا،اورآخرت میں شدیدپکڑ ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں