حرام کام کرنے والے کو انجانے میں دکان فروخت کرنا

سوال: انگلینڈ میں رہنے والی ایک مسلمان فیملی نے ایک اسٹور اور ایک پوسٹ آفس لیا ہوا ہے اب وہ اس کو بیچ رہے ہیں لیکن جس شخص کے ساتھ انہوں نے سودا کیا ہے تمام معاملات طے ہونے کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں آف لائسنس کاروبار کریں گے یعنی وہ شراب وغیرہ کا کام کریں گے اور یہ بات سودا طے ہوجانے کے بعد انہوں نے بتائی ہے۔

جب اسٹور وغیرہ کے اصل مالک کو یہ بات معلوم ہوئی جو کہ مسلمان ہیں تو انہوں نے اسے بیچنے سے صاف انکار کردیا یہ کہہ کر کہ میرے لیے یہ کمائی حرام ہے۔

اب اس فیملی کا پیسہ پھنس گیا ہے اور وہ بہت پریشان ہیں اور پوچھنا چاہ رہے ہیں:

1۔ شراب وغیرہ کی خرید و فروخت کا کام کرنا اگر مسلمان کریں تو کیا یہ حرام ہے؟

2۔ اگر یہ بک جاتا ہے مالک کے ماننے کے بعد تو جو پیسہ ملے گا کیا یہ پیسہ حلال ہوگا یا حرام؟

الجواب باسم ملھم الصواب

1۔ کسی مسلمان کے لیے شراب وغیرہ کی خرید و فروخت کرنا قطعا حرام ہے۔

2۔ کسی ایسے شخص کے ساتھ دکان کا سودا کرنا جس کے بارے میں یقینی علم ہو کہ وہ اس جگہ حرام کام کرے گا جائز نہیں ہے اور اس جگہ جو حرام کام ہوگا تعاون علی الاثم کی وجہ سے بیچنے والے پر بھی اس کا گناہ ہوگا۔

البتہ اگر بیچ دیا ہے تو بیع بہرحال منعقد ہوجائے گی۔

لیکن اگر لاعلمی میں کسی حرام کام کرنے والے شخص کے ساتھ سودا کرلیا تو بیچنے والے پر اس کا گناہ نہیں ہوگا۔

صورت مذکورہ میں اگر کسی طرح یہ سودا ختم کرنا ممکن ہو تو یہ معاملہ نہ کریں اور اگر سودا ختم نہیں کرسکتے تو بیچنے والے پر گناہ نہیں ہوگا اور کمائی حلال ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ “قال اللہ تعالیٰ: وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ۔”

ترجمہ: پاکیزہ چیز کو ناپاک چیز سے تبدیل مت کرو۔

(النساء: 2)

2۔ “ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔”

ترجمہ: اور گناہ اور سرکشی میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو۔

(المائدۃ:2)

3۔ عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ انہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول یوم الفتح و ھو بمکۃ ان اللہ حرم بیع الخمر و المیتۃ و الخنزیر۔۔۔۔الخ

ترجمہ:جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح کے سال جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے، فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خریدو فروخت کو حرام قرار دیا ہے“۔

(صحیح البخاری:2236)

4۔ لابأس بان یواجر المسلم داراًمن الذمی لیسکنھا فان شرب فیھا الخمر او عبد فیھا الصلیب او ادخل فیھا الخنازیر لم یلحق للمسلم اثم فی شئی من ذالک لانہ لم یوجر ھا لذلک والمعصیۃ فی فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا اثم علی رب الدار فی ذلک

(المبسوط:1/ 309)

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

۱رجب۱۴۴۳ھ

3 فروری 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں