حرام  مال سے قربانی، مضاربت، بیوی بچوں کا خرچہ

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:166

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

الجواب حامداً و مصلیاً

(١) قربانی کے جانور میں ایسے شخص کو شریک نہیں کرنا چاہیے جس کی آمدنی حلال نہ ہو البتہ اگر کسی ایسے شخص کو اپنی قربانی میں شریک کرلیا ہے تو ایسی صورت میں بعض علماء کے نزدیک اس شخص سمیت کسی بھی شریک کی قربانی درست نہیں ہوگی جبکہ بعض علماء کے نزدیک دوسرے شرکاء کی قربانی بہرحال درست ہو جائے گی اور جس شخص کا مال حلال نہیں ہے اسکی قربانی بھی زمہ سے اتر جائے گی لیکن اسکو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا ، مالی عبادات میں احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے قول پر عمل کیا جائے تاہم اگر کسی مجبوری میں دوسرے قول پر عمل کرلیا تو اسکی بھی گنجائش ہے، البتہ اگر کسی کو شریک کرتے وقت یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی آمدنی حرام ہے تو ایسی صورت میں باقی شرکاء کی قربانی بہرحال درست ہو جائے گی۔

رد المختار۔(ج٦/ص٣٢٦)

وان مات أحد السبعة) المشتركين في البدنيه ( و قال الورقه اذبحوا عنه و عنكم صح ) عن الكل استحساناً لقصد القربة من الكل و لو ذبحوا بلا إذن الورثه لم يجزهم لأن بعضها لم يقع قربة ( وإن كان شريك الستة نصرانياً اؤ مريدا اللحم لم يجز عن واحد ) منهم لأن الاراقة لا تتجزا هداية لما مر

رد المختار (ج٣/ص٢٥٧) 

(قوله وإن كان شريك الستة نصرانياً الخ) و كذا اذا كان عبداً اؤ مدبرا يريد الضحية لأن نيته باطلة لأنه ليس من أهل هذه القربة فكان نصيبه لحماً فمنع الجواز أصلاً بدائع

رد المختار (ج٧/ص٥٥)

لو اخرج زكاة المال الحلال من مال حرام ذكر فى الوهبانيه أنه يجزئ عند البعض

(٢) جس شخص کی غالب آمدنی حرام ہو اور وہ اسی حرام آمدنی سے شرکت، مضاربت یا خرید و فروخت کرے تو اسکے ساتھ یہ معاملات کرنا جائز نہیں ہیں، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے البتہ اگر اسکی غالب آمدنی حلال ہو یا وہ کسی حلال رقم سے یا کسی سے قرض لیکر مذکورہ معاملات کرے تو ایسی صورت میں اس سے مذکورہ معاملات کیے جاسکتے ہیں۔

الدر المختار (ج٥/٩٥)

وفيه الحرام لم ينتقل فلو دخل بأمان و أخذ مال حربى رضاه و أخرجه الينا ملكه و صح بيعه لكن لا بطيب و لا للمشترى منه

حاشيه ابن عابدين (ج١٩/ص ٣٨٠)

(قوله الحرمة تتعد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال فى كتاب المنن : وما نقل عن بعض الحنيفه من أن الحرام لا يتعدى ذمتتن ، سالت عنه الشهاب ابن الشلى فقال : هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك الآخر آخر فهو حرام ………. والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم ، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له و يتصدق به بنية صاحبه ، و أن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم اربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما ، والاحسن ديانة السترة عنه

(3) اگر بیوی کے لیے جائز طریقے سے اپنے اخراجات برداشت کرنا ممکن ہو تو ایسی صورت میں اسکے لیے اپنے شوہر کے مال سے کھانا جائز نہیں، لیکن اگر بیوی کے لیے اپنے اخراجات جائز طریقے سے برداشت کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اسکے لیے اپنے شوہر کے مال سے کھانا جائز ہے اور اسکا گناہ شوہر ہر ہوگا۔

نابالغ اور چھوٹے بچوں کا بھی یہی حکم ہے اور حرام کھلانے کا گناہ باپ پر ہوگا۔ البتہ بالغ اولاد کے لیے باپ کی آمدنی سے کھانا جائز نہیں ہے بلکہ خود کماکر کھائیں۔

قال شيخنا العثمانى فى بحوث قضايا فقهية معاصرة (ج١/ص٣٤٧) 

يجب على الزوجات فى مثل هذه الحال أن يبذلوا اقضى ما فى وسعهم فى تحذير أزواجهن عن العمل فى بيع الخمور و الخنازير و لكنهم ان أبوا الا العمل فيه، فإن تيسر لهن تحمل نفقات أنفسهن بطرق مباحه، فلا يجوز لهن الاكل من أموال أزواجهن ، و ان تيسر لهن ذلك ، فيسع لهم الاكل ، والاثم على الأزواج والآباء للاطفال الصغار حكم الزوجات، أما الاولاد الكبار فعليهم أن يكتسبوا لأنفسهم ولا ياكلوا من هذه المال.

و جواز الاكل الزوجة فى مثل هذه الحالة قد صرح بعض الفقهاء.

قال ابن عابدين رحمة الله عليه : امرأة زوجها فى أرض الجور ، اذا اكلت من طعامه و لم يكن عينه عضبا أو اشترى طعاما أو كسوة مال ليس بطيب فهى فى سعة من ذلك ، والاثم على الزوج والله اعلم بالصواب

عبد الماجد اشرف عفا اللہ عنہ 

دارالافتاء دارالعلوم کراچی

٣٠ جمادى الأول ١٤٣٢ه‍ 

۱۵ اپریل 2011 ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/651245335244715/

اپنا تبصرہ بھیجیں