قبولیت اعمال کادارومدار
یہودی، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبی ماننے والے اور ان کی شریعت کے پیروکار کو کہتے ہیں۔ یہود، اﷲ تعالیٰ کو مانتے ہیں، موسیٰ علیہ السلام پہلے دنیا میں بھیجے گئے پیغمبروں کو تسلیم کرتے ہیں، توریت کی صورت میں نازل ہونے والی آسمانی کتاب پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ ان کا فرشتوں اور قیامت پر یقین ہے۔ صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ اپنی عبادت گاہوں کی تعمیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ ملاتے ہیں۔ مخصوص عبادات بجا لاتے ہیں اور جانوروں کو اﷲ کے نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ آخرت میں ناکام ہیں۔
عیسائی یا نصرانی، سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو پیغمبر ماننے والوں کو کہتے ہیں۔ عیسائی اﷲ تعالیٰ کو مانتے ہیں۔ انبیاءکے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ قیامت اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ کلیسا میں جا کر مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ چرچ کی تعمیرات اور ناداروں کی دیکھ بھال میں خوب حصہ ملاتے ہیں۔ مگر ان سب نیک کاموں کے باوجود وہ آخرت کی زندگی میں کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
مشرکین مکہ، بیت اﷲ کا طواف کیا کرتے تھے۔ حج اور عمرہ ادا کیا کرتے تھے۔ بچوں کی ختنہ کیا کرتے تھے۔ عقیقہ کیا کرتے تھے۔ صدقہ و خیرات اور زکوٰة ادا کیا کرتے تھے۔ ان کے ہاں بھی حلال و حرام کے قاعدے مقرر تھے۔ حاجیوں کی خدمت کو سعادت سمجھنا، مہمانوں کا اکرام کرنا اور بیت اﷲ کی تعمیر میں حصہ ملانا ان سب نیک کاموں میں وہ مشہور تھے۔ ان سب امور کے باوجود وہ آخرت کی ابدی زندگی میں ناکام و نامراد ہیں۔
دنیا کے ہر مذہب میں خیر کے کاموں کا تصور ہے۔ غریبوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا، حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا، رفاہی اور فلاحی کاموں میں پیش پیش رہنا اور عبادت اور پوجا کے نام سے مختلف مذہبی رسومات ادا کرنا یہ چیزیں دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہیں۔ مگر ان سب حقائق کے باوجود آخرت کی زندگی میں وہ ناکام ٹھہرتے ہیں۔کیوں؟
کیونکہ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں اعمال کی قبولیت کا دارومدار ”عقیدے کی اصلاح“ پر ہے۔ اگر عقیدہ درست ہو تو تمام نیک عمل مقبول اور عقیدہ ٹھیک نہ ہو تو تمام اعمال مردود اور فضول!!!
قوموں کی تاریخ میں ہمیشہ سے سنت اﷲ یہ جاری رہی ہے کہ انسانوں سے سب سے پہلے عقیدے کی اصلاح کا مطالبہ کیا گیا اور اسی کو تمام اعمال کی قبولیت کامعیار اور اساس مقرر کیا گیا۔ اگر عقیدہ اﷲ رب العزت کی منشاءکے مطابق ہوا تو اعمال مقبول اور اگر عقیدہ اﷲ رب العزت کی منشاءکے خلاف ہوا تو اعمال ضائع اور بے کار!!!
پہلی مثال:
اس حقیقت کودو مثالوں سے سمجھیں!
ایک شخص 1 کا عدد لکھتا ہے اور صفر اس کے دائیں طرف لگانے کی بجائے الٹی طرف لگانا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے (00001 )تو بتائیے یہ کاؤنٹنگ کسی شمار میں ہوگی یا فضول ہوگی؟ دوسرا شخص 1 کا عدد لکھنے کے بعد صفر اس کے دائیں طرف (10000) لگاتا ہے تو اس کی کاؤنٹنگ درست شمار ہوتی ہے اور ایک کے بعد دس اور اس کے بعد سو اور ہزار اور لاکھوں تک اس کی گنتی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دیکھےے! صفر دونوں نے لگائے ہیں۔ لیکن پہلے شخص کی کاؤنٹنگ اس لیے بے کار اور ضائع ہے کہ اس نے اس شرط کے مطابق کاؤنٹنگ نہیں کی جو لوگوں کی نظر میں مطلوب ہے۔ جبکہ دوسرے کی کاؤنٹنگ کو صرف اس لیے معتبر مانا گیا کہ اس نے صحیح طریقے سے کاؤنٹنگ کی تھی۔
دوسری مثال:
ایک شخص ایک ایسی زمین میں بیج بوتا ہے جو قابل کاشت ہے۔ زرخیز ہے۔ ایسی زمین پر بارش برستے ہیں سبزہ نکل آتا ہے اور مقررہ مدت میں فصل پک کر پھل دینے کے لےے تیار ہوجاتی ہے۔ جبکہ دوسرا شخص کسی پتھریلی زمین پر بیج بوتا ہے یا بنجر زمین میں بیج ڈالتا ہے تو بارش کی وجہ سے پتھریلی زمین سے بیج ہی غائب ہوجاتے ہیں اور بنجر زمین سے بجائے مفید پیداوار نکلنے کے کانٹے دار جھاڑیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ پہلے شخص نے قابل کاشت زمین میں بیج بویا تھا۔ زمین ، باصلاحیت اور زرخیز تھی اس لےے بارش برستے ہی اس نے فائدہ پہنچایا جبکہ دوسرے شخص نے مردہ اور پتھریلی زمین مےں بیج بویا یعنی ایک ایسی زمین پر محنت کی جس میں پیداوار کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ لہٰذا وہ پھل کیا دیتی؟ محنت بھی بے کار اور مال بھی ضائع!
یہی مثال مومن اور کافر کی ہے۔ مومن کے دل کی زمین ایمان اور عقیدہ کی اصلاح کی وجہ سے زرخیز اور باصلاحیت ہوتی ہے اس کی محنت رنگ لاتی ہے۔ جبکہ کافر کے دل کی دنیا کفر کی وجہ سے بنجر اور پتھریلی ہے اس لےے اس کی محنت بے کار اور بے ثمر ہے۔
اسی طرح امتحان اور آزمائش کی اس زندگی میں کامیاب وہ ہے جو عقیدے کی درستگی کے ساتھ عمل کرے۔ تب ہی اس کے عمل بار آور اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکیں گے۔ بصورت دیگر اس کے عمل بے معنیٰ اور فضول ہوںگے۔
چند اور پہلو:
اسلام میں عقیدہ کی اہمیت کے چند اور پہلوبھی ہیں، مثلاً:
1.۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے شروعات میں عقیدے کی اصلاح کوہی اپنی محنت اور کاوشوں کا مرکز بنایا۔ نماز تو نبوت ملنے کے دس سال بعد فرض ہوئی۔ زکوٰة اور روزہ بھی کافی سالوں بعد فرض کیے گئے۔ حج تو بالکل آخر میں فرض ہوا۔ اس سے پہلے کے عرصے میں مسلمانوں کے عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت پر ہی توجہ دی گئی۔
2۔ قرآن کریم کے مضامین کے اعداد و شمار جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں زیادہ تر مضامین عقائد کے ہیں۔ اعمال و احکام کی آیات، عقائد سے متعلق آیات سے بہت کم ہیں۔
3۔ قبر کی زندگی آخرت کی زندگی کا پہلا زینہ ہے۔ قبر کی زندگی میں انسان کو منکر نکیر کے جن سوالات کا سامنا کرنا ہے وہ عقائد سے ہی متعلق ہیں۔ تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ تمہارے نبی کون ہیں؟ یہ سارے سوالات عقیدے سے متعلق ہیں۔
4۔اسلام میں عقیدے کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ آخرت کی زندگی مےں ایک مومن کی عملی کمزوری قابل مغفرت ہے۔ اﷲ جل شانہ اپنی شان کریمی کی وجہ سے گناہ گار مسلمان کو گناہوں کی سزا دیے بغیر بھی بخش سکتے ہیں۔(یہ محض اس کا فضل اورنکتہ نوازی ہو گی)۔ بصورت دیگر اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد وہ جنت میں ضرور داخل ہوکر رہے گا۔ جبکہ شرکیہ اور کفریہ عقائد کا حامل چاہے جتنے ہی نیک اعمال کرلے۔ وہ کتنا ہی بڑا پنڈت، پادری اور دنیا سے الگ تھلگ رہنے والا ہو لیکن عقیدے کی خرابی کی وجہ سے اس کی کسی صورت میں بخشش نہیں ہے۔
تو چلیے! کچھ عقیدے درست کر لیتے ہیں۔
کچھ عقیدے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”رسول اور مومنین اس چیز کے حق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں جو ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ تمام انبیاءاور مومنین اﷲ تعالیٰ کے موجود ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور فرشتوں کے موجود ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابوں کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اﷲ کی طرف سے بھیجے گئے تمام رسولوں کے سچے ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں) کہ ہم خدا کے پیغمبروں پر ایمان لانے میں فرق کے قائل نہیں ہیں۔“ (کہ کسی کو پیغمبر مانیں اور کسی کو نہ مانیں )
(البقرہ: ۵۸۲)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اے ایمان والو! اﷲ (کے وجود اور اس کی ذات و صفات )پر ایمان رکھو! اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ (ان سب پر ایمان رکھو) اور جو شخص اﷲ کا، اس کے فرشتوں کا، اور اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یوم آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔“
(النسائ: آیت نمبر ۲۳۱)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بے شک اﷲ تعالیٰ شرک کے گناہ کو نہیں بخشے گا۔ شرک سے نیچے کے گناہ جس کے چاہے گا اﷲ بخشے گا اور جس نے اﷲ کا شریک ٹھہرایا وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا۔“
(النسائ: آیت نمبر:۶۱۱)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”اﷲ جل شانہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا پھر اسے حکم دیا کہ لکھ! قلم نے عرض کیا: خدایا کیا لکھوں؟ ارشاد ہوا: تقدیر لکھ! تو اس نے وہ تمام حالات و واقعات جو اس دن سے پہلے ہوئے پیش آئے تھے اور جو کچھ بعد میںابد تک پیش آنے والا ہے سب کچھ لکھ دیا۔“ (مشکوٰة : ۱/۱۲ایمان بالقدر)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”تقدیر کا انکار کرنے والے، اس امت کے مجوسی ہیں۔ اگر یہ لوگ بیمار ہوں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور مر جائیں تو ان کے جنازوں میں شریک نہ ہونا۔“ (مشکوٰة : ۱-۲۲)
ایک سوال اور اس کا جواب:
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو لوگ کافر ہیں ان کو ان کے نیک اعمال کی جزا نہ ملنا، عدل و انصاف کے خلاف بات لگتی ہے۔ ان کو ان کے نیک اعمال کا کچھ نہ کچھ تو بدلہ ملنا چاہےے!
جواب اس کا یہ ہے کہ بدلہ ملنے کی دو صورتیں ہےں: ایک یہ کہ آخرت میں بدلہ مل جائے دوسرا یہ کہ دنیا میں بدلہ دیا جائے۔ آخرت میں نیک اعمال کا بدلہ تو ایمان اور اصلاحِ عقیدہ پر ہی موقوف ہے۔ اگر نیک عمل بے شمار کیے لیکن کفر اور بے دینی کی حالت میں موت آئی تو سارے نیک عمل ضائع ہیں۔ جیسا کہ مثالوں سے اس کی وضاحت گزشتہ سطور میں کردی گئی ہے۔ ہاں! اگر ایسے لوگ ایک عرصہ تک کفر کی حالت میں نیک اعمال انجام دیتے رہے پھر کسی وقت مسلمان ہوگئے تو اﷲ تعالیٰ کے بے پناہ فضل و انعام سے اس کے گزشتہ تمام نیک عمل بیک وقت مقبول ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے گزشتہ گناہ بھی نیکیوں سے تبدیل کر دیےجاتے ہیں۔
”مگر جس نے کفر سے توبہ کی اور ایمان قبول کر لیا اور نیک عمل کیے تو اﷲ تعالیٰ اس کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔“
(الفرقان آیت نمبر :۰۷)
جہاں تک دنیا میں نیک اعمال کا بدلہ ملنے کی بات ہے تو اﷲ رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ دنیا میں ان کو ان کے نیک عمل کا بدلہ ملتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
”جو لوگ صرف دنےوی زندگی اور اس کی سج دھج چاہتے ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ اسی دنیا میں بھگتا دیں گے اور یہاں دنیا میں ان کے حق میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لےے آخرت میں دوزخ کے سوا کچھ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں نیک عمل کیے تھے وہ آخرت میں بے کار ہوجائیں گے اور وہ جو عمل کیے جارہے ہیں آخرت کے لحاظ سے کالعدم ہیں۔“
(ھود: آیت نمبر ۵۱۔۶۱)
یعنی غیر مسلم جوکچھ نیک اعمال اور خیر کے کام کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ اپنے علم و حکمت سے جس قدر مناسب چاہتے ہیں دنیا میں ہی اس کا بدلہ تندرستی، مال ،اولاد، عزت، شہرت اور حکومت کی صورت میں دے کر ان کا حساب بے باق کردتےہیں۔ لیکن آخرت میں ان کے یہ اعمال رتی برابر کام نہیں آئیں گے۔
ایک اہم سوال اور اس کا جواب:
یہاں ایک اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی ایمان اور درست عقیدے کی پہچان کیسے ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ آج دنیا میں پایا جانے والا ہر مذہب اپنے حق پرست ہونے کا دعویدار ہے۔ ہر ایک اپنے دلائل رکھتا ہے۔ ایسے میں حق کی تلاش کس طرح ممکن ہوسکتی ہے؟
جواب سے پہلے چند مشترکہ تصورات اور متفقہ باتوں کو سمجھنا ضروری ہے:
1۔.یہ کائنات اللہ رب العزت کی تخلیق ہے۔ وہ ہی اس کا حقیقی مالک ہے اس لےے اسی کو کائنات کا نظام وضع کرنے کا اختیار بھی ہے۔ لہٰذا وہ ہی مذہب خدا کا حقیقی پیغام ہوسکتا ہے جو خالق کائنات کی طرف سے نازل کردہ ہو۔ انسانی عقل کے بنائے ہوئے مذاہب حق پر نہیں ہوسکتے۔
2۔اقوام عالم کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک وقت میں دنیا میں کوئی ایک مذہب ہی دین برحق ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ تمام مذاہب حق پر ہوں۔
3۔ابتدائے آفرینش سے ہی رب العزت نے اپنی خاص مصلحت سے خیر اور شر اور حق اور باطل کی قوتوں کو پیدا فرمایا ہے خیر کے راستے کے لےے روشن دلائل قائم کےے ہیں اور انسان کو عقل دے کر اس کا مکلف بنایا ہے کہ وہ اپنی عقل و دانش اور دےے گئے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے خیر اور حق کے راستے کو پہچانےںاور اسے اپنائیں۔
4۔آسمانی کتابوں کے مطالعے اور انسانی عقل کے مطالبے سے دین برحق کی چند واضح نشانیاں یہ معلوم ہوتی ہیں:
(الف) آسمانی مذاہب توحید کے پرستار اور شرک سے بیزاری کے علمبردار ہوتے ہیں۔
(ب) .تمام آسمانی مذاہب پیغمبروں کی عزت و توقیر اور ان کی تصدیق و حمایت کا حکم دیتے ہیں۔
(ج) .آسمانی مذہب فطرت اور مشاہدات کے خلاف نہیں ہوتا۔ فطرت اور مشاھدات ہمیشہ آسمانی مذہب کی تائید کرتے ہیں۔
(د) وہ ہی مذہب برحق ہے جس کی تعلیمات افراط و تفریط اور شدت اور غلو سے پاک ہوں۔ اعتدال اور میانہ روی کا عکس اس کے پیغامات میں واضح ہو۔
(ہ) جس مذہب کے ابتدائی نقوش، اصلی خدوخال اور مذہبی دستاویزات محفوظ ہوں وہ ہی دین برحق ہوسکتا ہے۔ جس مذہب کا اصل پیغام اور ابتدائی خدوخال ہی محفوظ نہ ہوں یعنی جو خود اپنی بقاءاور حفاظت کا محتاج ہو وہ دنیا کی روحانی پیاس اور محتاجی کو کیسے ختم کرسکتا ہے؟
دنیا کے تمام مذاہب کو ان مشترکہ اور معقول حقائق پر پرکھ لیا جائے تو یہ گتھی ادنیٰ تامل سے سلجھ سکتی ہے کہ کون حق ہے اور کون باطل؟ ہر انسان مامور ہے کہ وہ ان قوی اور کھلے دلائل میں غور کرکے حق کا کھوج نکالے۔ ان روشن دلائل کے باوجود بھی کوئی حق کو تلاش نہ کرے۔ اپنے آباءو اجداد کی کورانہ تقلید کی روش اپنائے رکھے اور آبائی مذہب پرجما رہے تو وہ جان لے کہ قرآن کا یہ دو ٹوک پیغام اسی کے لیے ہے:
”کہہ دو کہ: کیا ہم تمہیں بتائیں کہ کون لوگ ہیں جو اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ سیدھے راستے سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔“ (کہف: ۳۰۱، ۴۰۱)
”تم میں سے ایک گروہ کو تو اﷲ نے ہدایت تک پہنچادیا ہے اور ایک گروہ وہ ہے جس پر گمراہی مسلط ہوگئی ہے کیونکہ ان لوگوں نے شیطان کو دوست بنالیا ہے اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔ (اعراف:۰۳)