استعمال کی نیت سے خریدے ہوئے مال میں تجارت کی نیت کرنے پر زکوٰۃ کا حکم!

سوال: مال خریدتے وقت تجارت کی نیت نہیں تھی لیکن بعد میں اس مال سے تجارت شروع کردی کیا اس مال پر زکوٰۃ ہوگی؟

الجواب باسم ملهم الصواب!

واضح رہے کہ کسی مال کو خریدتے وقت فروخت کی نیت نہ ہو بلکہ استعمال کرنے کی نیت ہوتو ایسا مال مالِ تجارت نہیں اور اس پہ زکوٰۃ لازم نہیں اگرچہ اس کو بعد میں فروخت کرنے کی نیت ہوگئی ہو البتہ جب ایک دفعہ فروخت کردیا تو جو اس سے پیسے حاصل ہونگے وہ اگر خود یا دیگر اموال زکوٰۃ کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ رہے ہوں تو ان پہ زکوٰۃ لازم ہوگی۔

==================================

1)عبد مثلا (اشتراه لها نوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وان نواه لها مالم يبعه بجنس ما فيه الزكاة والفرق ان التجارة عمل ،فلا تتم بمجرد النيه-

(رد المحتار على الدر المختار: 228/3)

2)ثم نیة التجارة والإسامة لاتعتبرمالم تتصل بفعل التجارة والإسامة … ولو اشتری عروضاً للبذلة والمهنة ثم نوی أن تکون للتجارة بعد ذلک لاتصیر للتجارة مالم یبعها فیکون بدلها للتجارة؛ لأن التجارة عمل فلاتتم بمجرد النیة، بخلاف ما إذا کان للتجارة فنوی أن تکون للبذلة خرج عن التجارة بالنیة وإن لم یستعمله لأنها ترك العمل.

(البحر الرائق، کتاب الزکاۃ : 226,225/2)

3)(وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر۔

(فتح القدیر: 168/2)

والله سبحانه وتعالى اعلم بالصواب

22/7/1443

24/2/22

اپنا تبصرہ بھیجیں