ختم قرآن کی تقریب کا حکم

سوال:میری بیٹی حافظہ بن چکی ہے اس خوشی میں ہم تقریب رکھنا چاہتے ہیں تو رشتے داروں اور دوست احباب کو دعوت دی ہے اگر وہ لوگ بچی کو تحفے میں پیسے دیں یا تحفہ دیں تو کیا ہم رکھ سکتے ہیں جائز ہے ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

ماشاءاللہ ۔ اللہ تعالی بچی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔ 

سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ ختم قرآن کی اس عظیم نعمت پراظہار خوشی کے لیے تقریب منعقد کرنے میں یہ ملحوظ رکھنا نہایت اہم ہے کہ تقریب شرعی حدود کے اندر ہو اس میں نام ونمود اور اسراف نہ ہو اس کو لازم نہ سمجھا جائے اور تقریب میں مدعو مہمان اگر بچی کی حوصلہ افزائی کے لیے بطور تبرع کوئی ہدیہ وغیرہ دیں تو اس کے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ 

یہاں فتاوی محمودیہ کا ایک جواب نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو اس عمل کے دیگر پہلوؤں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

” قرآن کریم اللہ پاک کی بہت بڑی دولت ہے، اس کا حفظ کرلینا بہت بڑی دولت ہے۔ اگر شکرانہ کے طور پر احباب و متعارفین کو مدعو کیا جائے اور غرباء و احباب کو کھانا کھلایا جائے تو یہ اس نعمت کی قدردانی ہے ممنوع نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک دوسروں کو بھی حفظ کا شوق عطا فرمائے۔اور یہ اجتماع ترغیب و تبلیغ میں معین ہوجائے، حضرت عمر فاروق -رضي الله عنه- نے جب سورہٴ بقرہ یاد کی تھی تو ایک اونٹ ذبح کرکے احباب و غرباء کو کھلادیا تھا، اس لیے سلف صالحین میں اس کی اصل اور نظیر موجود ہے، لیکن یاد رہے کہ اللہ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے، ریا اور فخر کے لیے جو کام کیا جائے وہ مقبول نہیں، اور نیت کا حال خدا ہی کو معلوم ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر اس نے رسم کی صورت اختیار کرلی تو اور پریشانی ہوگی، اس لیے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخفی طور پر غرباء کو ان کی ضروریات کی اشیاء دیدی جائیں اور بچہ نے جہاں ختم کیا ہے وہاں پڑھنے والے بچوں اور ان کے اساتذہ کو شیرینی وغیرہ دیدی جائے اور مدرسہ کی امداد کردی جائے۔”

“ویستحب لہ ان یجمع أہلہ وولدہ عند الختم ویدعوا لہم۔”

( ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع، زکریا قدیم ۵/۳۱۷، جدید ۵/۳۶۶)

“عن سلمۃ بن کھیلؓ قال سمعت جندبا العلقی قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من یسمع یسمّع اللہ بہ ومن یرائی یرائی اللہ بہ۔”

(صحیح مسلم، باب تحریم الریاء، النسخۃ الہندیۃ ۲/۴۱۲، بیت الأفکار رقم:۲۹۸۷، ابن ماجہ شریف، باب الریا والسمعۃ، کتاب الزہد، النسخۃ الہندیۃ۲/۳۱۰، دار السلام رقم: ۴۲۰۶،۴۲۰۷۰)

“أي من فعل فعلا أراد بہ التسمیع للناس، والتشہیر وازال الخمول بتشہیر الذکر شہر اللہ عیوبہ یوم القیٰمۃ۔” ( نجاح الحاجہ جاشیہ ابن ماجہ ص:۳۱۰،مکتبہ اشرفیہ)

واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں